"ہجوم" کیا ہے؟
سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی طرف سے وسط ایشیا کی اسلامی ثقافت اور پردے کی تباہی
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہجوم" (Hujum یعنی طوفان یا حملہ) سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے لیا گیا مذہبی و ثقافتی آزادی صلب کرنے اور پالیسیوں کا ایک سلسلہ تھا جو سوشلسٹ ملحد جوزف سٹالن نے وسط ایشیا خصوصا ازبکستان سے اسلامی ثقافت اور پردے کے خاتمے کے لئے شروع کیا تھا۔
اس کے لئے سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کے مسلم اکثریتی علاقوں خصوصاً وسط ایشیا اور ازبکستان میں وسیع پیمانے پہ پردہ اور نقاب جلانے کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا اور چوک و بازار پہ اسلامی ثقافت اور پردے کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جاتا اور اسے نشانہ تنقید بنایا جاتا۔صرف پردے کا خاتمہ اس مہم کا واحد مقصد نہیں تھا بلکہ اسلام کے عائلی قوانین اور وسط ایشیا کی اسلامی ثقافت کا مکمل خاتمہ اور انہیں سوشلسٹ ملحد سوویت یونین میں رنگنا اور سوشلزم کی تعمیر کے لئے راستہ صاف کرنامقصود تھا۔
1927 ء کے لگ بھگ اس منصوبے کا آغاز کیا گیا، اور یہ وسط ایشیا میں مسلمانوں کے لیے سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی طرف سے مذہبی آزادی کا مکمل خاتمہ تھا۔1
یہ غیر ملکی قابضوں یعنی ملحد سوویت یونین کی طرف سے وسط ایشیا کی مقامی تاجک، تاتاری اور ازبک آبادی پر زبردستی اور تلوار کے زور پہ اپنی ملحدانہ اور کافرانہ ثقافت اور روایات کو مسلطکرنے کی مذموم کوشش تھا۔ سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی طرف سے پردہ پہننا اور نقاب کرنا مذہبی اور سیاسی سرکشی قرار دیا گیا اور اس پہ اذیت ناک سزائیں، قید اور موت تک کی سزا اور جلاوطنی دی جاتی تھی۔ سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی طرف سے اس جھوٹ کی شدت سے تشہیر کی گئی کہ اس مہم کا مقصد خواتین کو آزادی دلانا اور انہیں معاشرے میں مردوں کے برابر مقام دینا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس مہم کے بعد الٹا اقتدار اور اعلیٰ عہدوں پہ قائم خواتین کی تعداد کم ہو گئی۔ 2
اس مقصد کے لئے سوویت سوشلسٹ ملحدوں نے وسط ایشیا کے مسلمانوں کے اعلیٰ طبقوں پہ مشتمل ایک سماجی گروہ پیدا کیا جس کے ذریعے زور شور سے اسلامی ثقافت اور پردے کے خلاف تشہیر شروع کر دی گئی، اخبارات میں پردے کے مذاق پہ مبنی کارٹون شائع کئے جاتے اور محکوم و مظلوم مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے جاتے، سوویت سوشلسٹ ملحدوں کی طرف سے یہ تشہیر کی گئی کہ یہ سب کچھ خواتین کو جدید تعلیم دینے کے لئے ہے لیکن اعلیٰ تعلیم صرف معاشرے کے اعلیٰ طبقوں تک محدود رہی۔
سن 1860 ء کی دہائی میں وسطی ایشیا پہ عیسائی زار روس نے قبضہ کر لیا اور انہوں نے وسطی ایشیا پر ون یونٹ کی حیثیت سے حکومت کی، جسے ترکستان کہا جاتا تھا، انہوں نے ایک پرامن، مالی طور پر منافع بخش سلطنت کو آسان بنانے کے لئے روسیوں اور مرکزی ایشیائی باشندوں کے لئے الگ الگ قوانین رکھے اور مقامی آبادیوں پہ ظلم تو روا رکھے لیکن یہ بعد میں 1917 کے سوشلسٹ ملحد انقلاب روس کے مظالم کا عشر عشیر بھی نہیں تھے اور نہ ہی عیسائی زاروں نے اپنی غیر مسلم ثقافت وسط ایشیا کے مسلمانوں پہ زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے روسی علاقوں میں جسم فروشی کی اجازت کے الگ الگ قوانین جب کہ وسطی ایشیائی خواتین کے لئے پردے کی اجازت برقرار رکھی۔3
1917ء میں روس میں سوشلسٹ ملحد انقلاب آیا اور سوشلسٹ ملحدوں نے عیسائی زار روس کا تختہ الٹ کر اس کے پورے خاندان کو قتل کر دیا اور روس کے اقتدار پہ قبضہ کر لیا۔ اقتدار میں آنے کے سات سال بعد سوویت سوشلسٹ ملحدوں نے1924 ء پردہ کے خلاف مہم شروع کر دی اور عیسائی زار روس کے زمانے میں وسط ایشیا کے اقتدار پہ فائز جدیدیت پسند طبقے کے افراد کو بے رحمی سے پھانسیوں پہ چڑھایا اور جلاوطن کر دیا۔4
سوویت سوشلسٹ ملحد حکمرانی نے انسداد پردہ کے لئے روسی سلاوی خواتین۔۔۔Slavic women... کی ایک تنظیم Zhenotdel یا زینوڈیل تشکیل دی، جس کی رکن خواتین عموماً جدیدہ تعلیم یافتہ عورتیں یا بیوہ ہوتی تھیں۔ ان کو سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی حکومت نے سرکاری سرپرستی دی، یہ خواتین شہر شہر، علاقے علاقے کا سفر کرتیں اور پردے کے خلاف تشہیری مہم چلاتیں، شعلہ انگیز تقریریں کرتیں اور جلسے کرتیں۔ عالمی یوم خواتین (8 مارچ 1927 ء) ازبکستان میں اسلامی ثقافت کی علامت پردے جلا کر اسلامی ثقافت اور پردے کے خلاف ہجوم مہم کا باضابطہ آغاز کردیا گیا۔5
ابتدائی مراحل میں اس مہم میں سوشلسٹ ملحد خواتین نے حصہ لیا لیکن بعد ازاں اس کا اطلاق تجارتی یا ٹریڈ یونین کے ارکان، فیکٹری ورکرز، اور اسکول اساتذہ اور دیگر غیر کمیونسٹوں تک پھیلا دیا گیا اور اسلامی ثقافت اور پردے کے خلاف تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے گئے اور اس مہم کو " حملہ" یا К наступлению!"(K nastupleniiu!) کا نام دیا گیا، حملہ امام بخاری، مسلم، ترمذی کے خطے وسط ایشیا کی اسلامی ثقافت اور پردے پہ۔ 6
اسلامی ثقافت اور پردے کے خلاف سوشلسٹ ملحدوں کی یہ مہم ازبکستان،تاجکستان، ترکمانستان سے آذربائجان تک پھیلی ہوئی تھی۔7
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مسلط کردہ قوانین اور قانونی اصولوں کے ساتھ ساتھ براہ راست جسمانی قوت اور جبر کا استعمال کیا گیا اور سوشلسٹ ملحدوں نے مقامی محکوم مسلم آبادیوں کو اس مقصد کے لئے ہولناک مظالم کا نشانہ بنایا۔
اس مہم میں روسیوں کو مسلم آبادیوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن سوشلسٹ ملحد سوویت یونین نے اس مزاحمت کو سختی سے کچل دیا اور آخرکار سوویت سوشلسٹ ملحدوں کے کئی دہائیوں کے ظلم و ستم، قتل و غارتگری اور انسانیت کو شرما دینے والے مظالم کی وجہ سے وسط ایشیا کی اسلامی ثقافت تباہ و برباد ہو کر رہ گئی، سوشلسٹ ملحد سوویت یونین افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکرا کر تباہ و برباد ہو گیا، دفن ہو گیا لیکن آج بھی وسط ایشیا اپنی پرانی اسلامی شناخت حاصل نہیں کر سکا، صدیوں کی ایک ثقافت کا خاتمہ، اقدار کا خاتمہ، تہذیب کا خاتمہ، تلوار، کلاشنکوف، گولی، بندوق اور پھانسی کے زور پہ، ان سرخوں،ملحدوں اور سوشلسٹوں کی طرف سے جو انسانیت سب سے بڑا مذہب اور عریبوں کے حقوق کی منافقانہ تشہیر کرتے نہیں تھکتے، ایشیا کیا سرخ ہو، یہ بہت پہلے سرخ ہو چکا جب سوویت سوشلسٹ ملحدوں نے کریمیا سے سائبیریا اور سائیبیریا سے افغانستان تک ایک صدی میں وسط ایشیا کے ایک کروڑ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
اگر آپ اپنے لئے ننگے ہونے، پنٹ شرٹ پہننے اور بے پردہ ہونے کا حق مانگتے ہیں اور مولوی کی داڑھی اور مسلم عورت کا پردہ آپ کو چبھتا ہے تو یقین کریں آپ سے بڑا منافق، قاتل، کمینہ اور بے غیرت کوئی نہیں ہے۔
سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی طرف سے وسط ایشیا کی اسلامی ثقافت اور پردے کی تباہی
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہجوم" (Hujum یعنی طوفان یا حملہ) سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے لیا گیا مذہبی و ثقافتی آزادی صلب کرنے اور پالیسیوں کا ایک سلسلہ تھا جو سوشلسٹ ملحد جوزف سٹالن نے وسط ایشیا خصوصا ازبکستان سے اسلامی ثقافت اور پردے کے خاتمے کے لئے شروع کیا تھا۔
اس کے لئے سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کے مسلم اکثریتی علاقوں خصوصاً وسط ایشیا اور ازبکستان میں وسیع پیمانے پہ پردہ اور نقاب جلانے کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا اور چوک و بازار پہ اسلامی ثقافت اور پردے کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جاتا اور اسے نشانہ تنقید بنایا جاتا۔صرف پردے کا خاتمہ اس مہم کا واحد مقصد نہیں تھا بلکہ اسلام کے عائلی قوانین اور وسط ایشیا کی اسلامی ثقافت کا مکمل خاتمہ اور انہیں سوشلسٹ ملحد سوویت یونین میں رنگنا اور سوشلزم کی تعمیر کے لئے راستہ صاف کرنامقصود تھا۔
1927 ء کے لگ بھگ اس منصوبے کا آغاز کیا گیا، اور یہ وسط ایشیا میں مسلمانوں کے لیے سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی طرف سے مذہبی آزادی کا مکمل خاتمہ تھا۔1
یہ غیر ملکی قابضوں یعنی ملحد سوویت یونین کی طرف سے وسط ایشیا کی مقامی تاجک، تاتاری اور ازبک آبادی پر زبردستی اور تلوار کے زور پہ اپنی ملحدانہ اور کافرانہ ثقافت اور روایات کو مسلطکرنے کی مذموم کوشش تھا۔ سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی طرف سے پردہ پہننا اور نقاب کرنا مذہبی اور سیاسی سرکشی قرار دیا گیا اور اس پہ اذیت ناک سزائیں، قید اور موت تک کی سزا اور جلاوطنی دی جاتی تھی۔ سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی طرف سے اس جھوٹ کی شدت سے تشہیر کی گئی کہ اس مہم کا مقصد خواتین کو آزادی دلانا اور انہیں معاشرے میں مردوں کے برابر مقام دینا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس مہم کے بعد الٹا اقتدار اور اعلیٰ عہدوں پہ قائم خواتین کی تعداد کم ہو گئی۔ 2
اس مقصد کے لئے سوویت سوشلسٹ ملحدوں نے وسط ایشیا کے مسلمانوں کے اعلیٰ طبقوں پہ مشتمل ایک سماجی گروہ پیدا کیا جس کے ذریعے زور شور سے اسلامی ثقافت اور پردے کے خلاف تشہیر شروع کر دی گئی، اخبارات میں پردے کے مذاق پہ مبنی کارٹون شائع کئے جاتے اور محکوم و مظلوم مسلمانوں کے جذبات مجروح کئے جاتے، سوویت سوشلسٹ ملحدوں کی طرف سے یہ تشہیر کی گئی کہ یہ سب کچھ خواتین کو جدید تعلیم دینے کے لئے ہے لیکن اعلیٰ تعلیم صرف معاشرے کے اعلیٰ طبقوں تک محدود رہی۔
سن 1860 ء کی دہائی میں وسطی ایشیا پہ عیسائی زار روس نے قبضہ کر لیا اور انہوں نے وسطی ایشیا پر ون یونٹ کی حیثیت سے حکومت کی، جسے ترکستان کہا جاتا تھا، انہوں نے ایک پرامن، مالی طور پر منافع بخش سلطنت کو آسان بنانے کے لئے روسیوں اور مرکزی ایشیائی باشندوں کے لئے الگ الگ قوانین رکھے اور مقامی آبادیوں پہ ظلم تو روا رکھے لیکن یہ بعد میں 1917 کے سوشلسٹ ملحد انقلاب روس کے مظالم کا عشر عشیر بھی نہیں تھے اور نہ ہی عیسائی زاروں نے اپنی غیر مسلم ثقافت وسط ایشیا کے مسلمانوں پہ زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے روسی علاقوں میں جسم فروشی کی اجازت کے الگ الگ قوانین جب کہ وسطی ایشیائی خواتین کے لئے پردے کی اجازت برقرار رکھی۔3
1917ء میں روس میں سوشلسٹ ملحد انقلاب آیا اور سوشلسٹ ملحدوں نے عیسائی زار روس کا تختہ الٹ کر اس کے پورے خاندان کو قتل کر دیا اور روس کے اقتدار پہ قبضہ کر لیا۔ اقتدار میں آنے کے سات سال بعد سوویت سوشلسٹ ملحدوں نے1924 ء پردہ کے خلاف مہم شروع کر دی اور عیسائی زار روس کے زمانے میں وسط ایشیا کے اقتدار پہ فائز جدیدیت پسند طبقے کے افراد کو بے رحمی سے پھانسیوں پہ چڑھایا اور جلاوطن کر دیا۔4
سوویت سوشلسٹ ملحد حکمرانی نے انسداد پردہ کے لئے روسی سلاوی خواتین۔۔۔Slavic women... کی ایک تنظیم Zhenotdel یا زینوڈیل تشکیل دی، جس کی رکن خواتین عموماً جدیدہ تعلیم یافتہ عورتیں یا بیوہ ہوتی تھیں۔ ان کو سوشلسٹ ملحد سوویت یونین کی حکومت نے سرکاری سرپرستی دی، یہ خواتین شہر شہر، علاقے علاقے کا سفر کرتیں اور پردے کے خلاف تشہیری مہم چلاتیں، شعلہ انگیز تقریریں کرتیں اور جلسے کرتیں۔ عالمی یوم خواتین (8 مارچ 1927 ء) ازبکستان میں اسلامی ثقافت کی علامت پردے جلا کر اسلامی ثقافت اور پردے کے خلاف ہجوم مہم کا باضابطہ آغاز کردیا گیا۔5
ابتدائی مراحل میں اس مہم میں سوشلسٹ ملحد خواتین نے حصہ لیا لیکن بعد ازاں اس کا اطلاق تجارتی یا ٹریڈ یونین کے ارکان، فیکٹری ورکرز، اور اسکول اساتذہ اور دیگر غیر کمیونسٹوں تک پھیلا دیا گیا اور اسلامی ثقافت اور پردے کے خلاف تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے گئے اور اس مہم کو " حملہ" یا К наступлению!"(K nastupleniiu!) کا نام دیا گیا، حملہ امام بخاری، مسلم، ترمذی کے خطے وسط ایشیا کی اسلامی ثقافت اور پردے پہ۔ 6
اسلامی ثقافت اور پردے کے خلاف سوشلسٹ ملحدوں کی یہ مہم ازبکستان،تاجکستان، ترکمانستان سے آذربائجان تک پھیلی ہوئی تھی۔7
اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مسلط کردہ قوانین اور قانونی اصولوں کے ساتھ ساتھ براہ راست جسمانی قوت اور جبر کا استعمال کیا گیا اور سوشلسٹ ملحدوں نے مقامی محکوم مسلم آبادیوں کو اس مقصد کے لئے ہولناک مظالم کا نشانہ بنایا۔
اس مہم میں روسیوں کو مسلم آبادیوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن سوشلسٹ ملحد سوویت یونین نے اس مزاحمت کو سختی سے کچل دیا اور آخرکار سوویت سوشلسٹ ملحدوں کے کئی دہائیوں کے ظلم و ستم، قتل و غارتگری اور انسانیت کو شرما دینے والے مظالم کی وجہ سے وسط ایشیا کی اسلامی ثقافت تباہ و برباد ہو کر رہ گئی، سوشلسٹ ملحد سوویت یونین افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکرا کر تباہ و برباد ہو گیا، دفن ہو گیا لیکن آج بھی وسط ایشیا اپنی پرانی اسلامی شناخت حاصل نہیں کر سکا، صدیوں کی ایک ثقافت کا خاتمہ، اقدار کا خاتمہ، تہذیب کا خاتمہ، تلوار، کلاشنکوف، گولی، بندوق اور پھانسی کے زور پہ، ان سرخوں،ملحدوں اور سوشلسٹوں کی طرف سے جو انسانیت سب سے بڑا مذہب اور عریبوں کے حقوق کی منافقانہ تشہیر کرتے نہیں تھکتے، ایشیا کیا سرخ ہو، یہ بہت پہلے سرخ ہو چکا جب سوویت سوشلسٹ ملحدوں نے کریمیا سے سائبیریا اور سائیبیریا سے افغانستان تک ایک صدی میں وسط ایشیا کے ایک کروڑ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
اگر آپ اپنے لئے ننگے ہونے، پنٹ شرٹ پہننے اور بے پردہ ہونے کا حق مانگتے ہیں اور مولوی کی داڑھی اور مسلم عورت کا پردہ آپ کو چبھتا ہے تو یقین کریں آپ سے بڑا منافق، قاتل، کمینہ اور بے غیرت کوئی نہیں ہے۔
حوالہ جات:
1:The Bolsheviks and Islam, International Socialism - Issue: 110
2:Book Review of Veiled Empire: Gender and Power in Stalinist Central Asia by Douglas Northrop Archived 2007-04-29 at the Wayback Machine - Sharon A. Kowalsky - June 2005
3:3:Kamp, Marianne (2006). The New Woman in Uzbekistan: Islam, Modernity and Unveiling Under Communism. University of Washington Press. ISBN 978-0-295-98644-9.pp135,136
4:Khalid, Adeeb (1998). The Politics of Muslim Cultural Reform: Jadidism in Central Asia. Comparative studies on Muslim societies. 27. Berkeley: University of California Press. ISBN 978-0-520-21356-2.p.300
5:Kamp, Marianne (2006). The New Woman in Uzbekistan: Islam, Modernity and Unveiling Under Communism. University of Washington Press. ISBN 978-0-295-98644-9.
6:6:Northrop, Douglas T. (2001b). "Hujum: unveiling campaigns and local responses in Uzbekistan, 1927". In Donald J. Raleigh (ed.). Provincial Landscapes: Local Dimensions of Soviet Power, 1917–1953. Pittsburgh: University of Pittsburgh Press. pp. 125–145. ISBN 978-0-8229-6158-1.p.131
7:Heyat, F. 2002. Azeri women in transition. London: Routledge. 89-94.
2:Book Review of Veiled Empire: Gender and Power in Stalinist Central Asia by Douglas Northrop Archived 2007-04-29 at the Wayback Machine - Sharon A. Kowalsky - June 2005
3:3:Kamp, Marianne (2006). The New Woman in Uzbekistan: Islam, Modernity and Unveiling Under Communism. University of Washington Press. ISBN 978-0-295-98644-9.pp135,136
4:Khalid, Adeeb (1998). The Politics of Muslim Cultural Reform: Jadidism in Central Asia. Comparative studies on Muslim societies. 27. Berkeley: University of California Press. ISBN 978-0-520-21356-2.p.300
5:Kamp, Marianne (2006). The New Woman in Uzbekistan: Islam, Modernity and Unveiling Under Communism. University of Washington Press. ISBN 978-0-295-98644-9.
6:6:Northrop, Douglas T. (2001b). "Hujum: unveiling campaigns and local responses in Uzbekistan, 1927". In Donald J. Raleigh (ed.). Provincial Landscapes: Local Dimensions of Soviet Power, 1917–1953. Pittsburgh: University of Pittsburgh Press. pp. 125–145. ISBN 978-0-8229-6158-1.p.131
7:Heyat, F. 2002. Azeri women in transition. London: Routledge. 89-94.
0 تبصرے