الحاد اور اسلام میں اضافے کا تقابل اور برطانیہ میں اسلام
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 1185ء کی بات ہے، کہانی آج سے لگ بھگ نو سو سال پہلے شروع ہوتی ہے، مسلم دنیا پہ ٹوٹ پڑنے والے یورہی صلیبی جنگجوؤں میں سے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک جنگی سردار رابرٹ آف سینٹ البانز نے عیسائیت چھوڑ کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ پہ اسلام قبول کر لیا، یہ شخص برطانیہ کا پہلا مسلمان تھا، لیکن اسلام کا سفر باقی یورپ کی طرح برطانیہ میں بھی بہت سست رہا،یہاں تک کہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ کا بیرونی قبضوں کی صورت میں مسلم دنیا سے رابطہ تیز ہوا اور اہلیان انگلستان اسلام سے متعارف ہونا شروع ہوئے، اگرچہ یہ تعلق حاکم و محکوم والا تھا لیکن اس دور میں بھی کئی اہم برطانوی شخصیات نے اسلام قبول کیا جن میں ایک نمایاں شخصیت محمد مارماڈیوک پکتھال تھے جنہوں نے 1930ء میں اسلام قبول کیا اور قرآن مجید کا پہلا انگریزی ترجمہ کیا، تب سے آج تک اسلام برطانیہ میں فروغ حاصل کر رہا ہے اور آج تاریخ میں پہلی بار برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد چھ فیصد کے قریب یعنی تینتیس لاکھ سے زائد ہو چکی ہے اور مستقبل قریب میں اس میں کئی گنا اضافے کا امکان ہے، اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد برطانیہ اور باقی یورپ میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس وقت اسلام یورپ اور برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے، اہل یورپ مسلم علاقے فتح کرتے رہے اور اسلام خاموشی سے ان کے اپنے گھروں میں داخل ہو چکا، اس وقت پوری دنیا اور یورپ میں اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد الحاد قبول کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ ہے، 2001-2010 کے درمیان ملحدین کی عالمی آبادی میں صرف 0.05 فیصد کا اضافہ ہوا جب کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 1.86 فیصد ہوا، اور یہ مسلسل جاری ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مقیم ہم مسلمان خود کو ان معاشروں کا مفید شہری ثابت کریں، وہاں کے معاشرے کی فلاح و بہبود میں ہر ممکن کوشش کریں، کیونکہ بیشک اسلام کی حفاظت تلوار سے ہوتی ہے لیکن اس کی تبلیغ اخلاق سے ہوتی ہے، اور اگر اسلام تلوار سے پھیلا ہوتا تو آج مسلمانوں کےاتنے زوال اور کمزوری
کے باوجود اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب نہ ہوتا، اسلام ایک جگہ سے نکلتا ہے تو دوسری جگہ خود بنا لیتا ہے، سپین سے نکالا گیا تو بلقان اور مشرقی و وسطی یورپ میں داخل ہوا ، پوری دنیا میں مغلوب ہوا تو مغلوب کرنے والے یورپ و امریکہ کے گھر میں داخل ہو چکا ہے،
بیشک اللہ اپنا نور تمام کرے گا بیشک کافروں کو ناپسند ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس سچ کی ایک فیصد تفصیل بھی نہیں لکھ سکا اور سچ تو یہ ہے کہ:
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
دھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ 1185ء کی بات ہے، کہانی آج سے لگ بھگ نو سو سال پہلے شروع ہوتی ہے، مسلم دنیا پہ ٹوٹ پڑنے والے یورہی صلیبی جنگجوؤں میں سے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک جنگی سردار رابرٹ آف سینٹ البانز نے عیسائیت چھوڑ کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ پہ اسلام قبول کر لیا، یہ شخص برطانیہ کا پہلا مسلمان تھا، لیکن اسلام کا سفر باقی یورپ کی طرح برطانیہ میں بھی بہت سست رہا،یہاں تک کہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں برطانیہ کا بیرونی قبضوں کی صورت میں مسلم دنیا سے رابطہ تیز ہوا اور اہلیان انگلستان اسلام سے متعارف ہونا شروع ہوئے، اگرچہ یہ تعلق حاکم و محکوم والا تھا لیکن اس دور میں بھی کئی اہم برطانوی شخصیات نے اسلام قبول کیا جن میں ایک نمایاں شخصیت محمد مارماڈیوک پکتھال تھے جنہوں نے 1930ء میں اسلام قبول کیا اور قرآن مجید کا پہلا انگریزی ترجمہ کیا، تب سے آج تک اسلام برطانیہ میں فروغ حاصل کر رہا ہے اور آج تاریخ میں پہلی بار برطانیہ میں مسلمانوں کی تعداد چھ فیصد کے قریب یعنی تینتیس لاکھ سے زائد ہو چکی ہے اور مستقبل قریب میں اس میں کئی گنا اضافے کا امکان ہے، اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد برطانیہ اور باقی یورپ میں تیزی سے بڑھ رہی ہے، اس وقت اسلام یورپ اور برطانیہ کا دوسرا بڑا مذہب بن چکا ہے، اہل یورپ مسلم علاقے فتح کرتے رہے اور اسلام خاموشی سے ان کے اپنے گھروں میں داخل ہو چکا، اس وقت پوری دنیا اور یورپ میں اسلام میں داخل ہونے والوں کی تعداد الحاد قبول کرنے والوں سے کئی گنا زیادہ ہے، 2001-2010 کے درمیان ملحدین کی عالمی آبادی میں صرف 0.05 فیصد کا اضافہ ہوا جب کہ مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ دنیا میں سب سے زیادہ یعنی 1.86 فیصد ہوا، اور یہ مسلسل جاری ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مقیم ہم مسلمان خود کو ان معاشروں کا مفید شہری ثابت کریں، وہاں کے معاشرے کی فلاح و بہبود میں ہر ممکن کوشش کریں، کیونکہ بیشک اسلام کی حفاظت تلوار سے ہوتی ہے لیکن اس کی تبلیغ اخلاق سے ہوتی ہے، اور اگر اسلام تلوار سے پھیلا ہوتا تو آج مسلمانوں کےاتنے زوال اور کمزوری
کے باوجود اسلام دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب نہ ہوتا، اسلام ایک جگہ سے نکلتا ہے تو دوسری جگہ خود بنا لیتا ہے، سپین سے نکالا گیا تو بلقان اور مشرقی و وسطی یورپ میں داخل ہوا ، پوری دنیا میں مغلوب ہوا تو مغلوب کرنے والے یورپ و امریکہ کے گھر میں داخل ہو چکا ہے،
بیشک اللہ اپنا نور تمام کرے گا بیشک کافروں کو ناپسند ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس سچ کی ایک فیصد تفصیل بھی نہیں لکھ سکا اور سچ تو یہ ہے کہ:
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
دھر ڈوبے ادھر نکلے، ادھر ڈوبے ادھر نکلے
0 تبصرے