دیسی سرخے،کامریڈز،کمیونزم اور صہیونیت،درپردہ تعلق،قریبی حقائق
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو ہر بات کو یہودیوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔بلکہ میں چاہوں گا کہ اگر کوئ بات سچ ہے تو اس کی دلیل اور ثبوت سے وضاحت کروں۔اگر کسی کو میری دلیل پہ اعتراض ہے اور وہ اسے جھوٹا ثابت کر سکتا ہے تو وہ اسے جھوٹ بھی دلیل سے ثابت کرے گا اور میں پھر کوشش کروں گا کہ اسے مستند دلیل دے کے اسے چپ ہونے یا ماننے پہ مجبور کر دوں۔
قارئین آج کل ہمارے ہاں مذہب،ملک،معاشرتی نظریات اور تاریخی حقائق کو جھٹلا دینے والے اور صرف مادہ پرست ذہن رکھنے والے کچھ نام نہاد تعلیم یافتہ دانشوروں،فلاسفروں اور تجزیہ نگاروں کا ایک ایسا گروہ بن چکا ہے جن کی نظر میں کمیونسٹ،سوشلسٹ اور آزاد خیالات کے علاوہ دنیا کا ہر مذہب،ہر فلسفہ،ہر توجیہہ اور نظریہ غلط ہے۔ان خیالات رکھنے والوں کو عام زبان میں کامریڈز کہا جاتا ہے۔یہ حضرات غربت،محنت کش طبقے کی حمایت کی آڑ میں کچھ ان نظریات کا پرچار کر رہے ہیں جن کے مطابق خدا کو نعوذ باللہ غریب کے مسائل سے کوئ دلچسپی نہیں،مذہب ہر برائ کی جڑ ہے وغیرہ وغیرہ۔ان خیالات کی بنیاد 1814 میں پروشیا میں پیدا ہونے والے ظاہراً ملحد اور درپردہ یہودی کارل مارکس کے نظریات پہ رکھی گئی ہے۔آئیے ذرا کارل مارکس کون تھا،اس کی حقیقت اور نظریات کیا تھے،اس کا کچھ تاریخی حوالہ جات سے جائزہ لیتے ہیں۔
جو بات عوام کو بتائ جاتی ہے اس کے مطابق کارل مارکس 1814 میں پروشیا میں پیدا ہونے والا ایک عیسائ تھا جس نے اپنی کتاب Communist manifesto لکھ کر کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظریات کی بنیاد رکھی۔اس کے نظریات پہ یقین رکھنے والوں کو کامریڈ کہا جاتا ہے۔
کارل مارکس اپنی کتابوں اورفلسفیانہ نظریات کے پرچار کے دوران ہمیشہ یہ دعوٰی کرتا رہا کہ توجیہہ اور وجہ کی دنیا میں خدا کے وجود کی کوئ جگہ نہیں۔اس کے مطابق جس طرح ایک ملک کی کرنسی کی دوسرے ملک میں کوئ گنجائش نہیں ہوتی اس طرح ایک ملک میں دوسرے مذہب کے خدا کی بھی کوئ گنجائش نہیں ہوتی۔
اس بات کا جواب یہ ہے کہ وہ فلسفہ جس پہ نام نہاد زمان و مکان کے تصور کی بنیاد رکھ کر اور خدا کے وجود کو اس کا پابند بنا کر خدا کے وجود کا انکار کیا گیا ہے ،اس کو کارل مارکس 1884 میں مرنے کے 32 سال بعد 1908 میں پیش ہونے والے آئن سٹائن کے نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹویٹی نے مسترد کردیا ہے۔اس کے مطابق ٹائم اینڈ سپیس یا زمان و مکان کا وجود مادے کی بقا کے لیے لازمی نہیں۔لہٰذا جب زمان و مکان عام مادے کی بقا کے لیے مطلق کو لازم نہیں تو خدا کے وجود کے لیےبھی مطلق نہیں یعنی اللہ اپنے وجود کے لیے زمان و مکان کا پابند نہیں۔دوسرا یہ کہ حال ہی میں سائنسدانوں نے انرجی یا توانائی کی ایسی قسم دریافت کی ہے جس نے تمام مادے کو باہم منسلک کر رکھا ہے،یہ توانائ ٹائم اور سپیس پہ منحصر نہی،اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے ،یہ تمام مادے اور اس کی تبدیلیوں کا پہلے سے علم رکھتی ہے اور کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے۔اب یہ توانائی اللہ کے سوا اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔اب سائنس نے خود در حقیقت اللہ کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے
,, ہم ان کو کائنات اور خود ان کے وجود میں ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ ہم نے سچ فرمایا۔''
اب کامریڈ حضرات کو چاہیے کہ جس فلسفے اور سائنس کی وہ بات کرتے ہیں،اسی سائنس کے مطابق اللہ کے وجود اور اس کے لازم اور مطلق ہونے کو بھی مان لیں کیونکہ سائنس نے ان کے پیشوا کارل مارکس کے خدا کے وجود کے نہ ہونے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
کارل مارکس کے مطابق مادہ ہر چیز کی سب سے طاقتور اور لاجواب وجہ ہے۔اب ہم نے اوپر آپ کو سائنسی دلیل دی کہ نظریہ اضافت یا ریلیٹویٹی کے مطابق خود مادہ یا Matter اپنے وجود کے کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ایسی توانائی پہ منحصر ہے جس نے اس کے ذرات کو باہم یکجا کر رکھا ہے۔اب جو مادہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیےخود توانائی پہ منحصر ہے وہ سب سے طاقتور اور لاجواب کیسے ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب ہے وہ خفیہ توانائی یا اللہ ہی سب سے طاقتور ہے جس نے اس مادے کے ذرات کو منتشر ہو نے سے روک رکھا ہے۔
کارل مارکس کے مطابق کسی بھی معاشرے کے تمام اجزا میں سب سے اہم جزو معاشی حالت ہے۔اس معاشی پہلو کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ مذہب کو امیر طبقے کا ہتھیار اور خاص مفادات کے حصول کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔اس کے مطابق مذہب دبے ہوئے لوگوں کا احتجاج اور انسانیت کے لیےایک ہیروئن کا نشہ ہے جو انہیں حقائق سے دور کر دیتاہے۔اس کے مطابق فلسفے کو چاہیےکہ وہ انسان کو اس کا اصل بتائے تا کہ پھر جنت کا تصور زمین کے تصور اور مذہب کا تصور سیاست کے تصور میں تبدیل ہو جائے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کسی معاشرے کی بقا کے لیے اگر معاشی عامل کو ہی سب سے اہم عامل تصور کر لیا جاۓ اور انسان کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔اس کے لیے آپ یورپی ممالک کو دیکھ لیں جہاں معاشی ترقی ہوئ اور انسان کی ساری توجہ مادہ پرستی کی طرف ہوئ۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کے ان ممالک کی آبادی میں اضافے کی شرح منفی میں چلی گئی اور اب ان کو اپنی نسل کے مٹ جانے کی فکر پڑ گئی ہے۔اور دوسری بات یہ کہ اگر معاشرتی عامل ہی معاشرے کے لیے سب سے اہم ہے تو انسان کو یہ کون بتائے گا کہ اس عامل کے حصول کے لیے کیا جائز ہے اور کیا غلط۔تیسری بات یہ کہ جس انسان کا مطمع نظر صرف مادہ ہو تو اس کو آخرت،قبر قیامت کا تصور اور خیال نہ ہوتے ہوئے اس کی زندگی اسے ان معاشی مفادات کے حصول کے لئے اس سے کتنے ناجائز کام کرائےگی۔اگر معاشی عامل ہی سب سے بڑا عامل ہے تو تمام تر معاشی ترقی کے ساتھ بھی یورپی ممالک کی نسلیں مدر پدر آزاد ہونے اور خاندان کے تصور ناپید ہونے کی وجہ سے مٹنے کے دہانے پہ کیوں ہیں۔اس کا مطلب ہےکہ معاشی ترقی کے علاوہ بھی بہت ساری اور چیزیں بھی ایسی ہیں جو معاشرے کی بقا کے لۓ لازم ہیں
دوسری بات کارل مارکس کی یہ کہ مذہب امیر طبقے کا ہتھیار ہے جس سے وہ خاص مفادات حاصل کر تا ہے۔اس بات کا جواب یہ ہے ایک طرف کارل مارکس مفادات اور معیشت کے لیے مذہب کو لازمی نہیں سمجھتا اور دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ مذہب خاص مفادات کے حصول کا ذریعہ ہے۔یہ دوہرا معیار ہوا۔اور بات یہ کہ دنیا میں ہر چیز کے دو استعمال ہیں۔ایک اچھا اور ایک برا۔اگر کوئ چھری کو پھل کاٹنے کے لیے استعمال کرے تویہ اچھا استعمال ہے اور اگر کوئ اسی چھری کو کسی کا گلا کاٹنے کے لیے استعمال کرے تویہ اس کا غلط استعمال ہے۔اب بات یہ کہ ایک ایسی چز یعنی مذہب جو انسان کو دنیا کے فانی ہونے،آخرت،قبر،قیامت کا بتاتے ہوئے اسے جائز بات کی تلقین کرتی ہے تو اگر کوئ مولوی،ملا،مسٹر،دنیا دار کوئ بھی اس کا غلط استعمال کر لے تو یہ چیز یعنی مذہب غلط نہیں ہو جائے گا۔غلط وہ ہوگا جس نے اس کا غلط استعمال نہیں کیا۔جس طرح چھری سے کسی کا قتل ہو جانے سے ہم چھری کو برا نہیں کہ سکتے اس طرح کسی کی طرف سے مذہب کے غلط استعمال سے ہم مذہب کو غلط نہیں کہ سکتے۔
کارل مارکس کی دوسری بات کہ مذہب غریب لوگوں کا احتجاج ہے اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے تو اس کا جواب یہ ہی کہ یورپ میں سب سے زیادہ مذہب پرستی پولینڈ،سپین،پرتگال ،آئرلینڈ میں ہے۔وہاں کے لوگ معاشی ترقی کے ساتھ بھی مذہب سے دور کیوں نہیں ہوئے۔خلیج اور عرب ممالک کے مسلمان اپنی معاشی ترقی کے بعد بھی مذہب سے دور نہیں ہوئے۔پھر کیسے کیا جا سکتا ہے کہ مذہب غربت کا اظہار ہے۔مارکس جیسے نام نہاد فلسفی کو یہ چھوٹی سی حقیقت کیوں نظر نہیں آئ۔
کارل مارکس کو دنیا میں ملحدانہ اور دہریہ خیالات کے سب سے بڑے نظام کا بانی مانا جاتا ہے جس نے خیالات نے دنیا میں خدا کے وجود کے منکروں کی سب سے بڑی تعداد پیدا کی۔اس نے اپنی شاعری میں لکھا
,,میں اس خدا سے بدلہ لینا چاہتا ہوں(نعوذ بااللہ) جو اوپر بیٹھ کر سب پہ حکرانی کرتا ہے''۔
اگر حقیقت میں اسے خدا کے وجود پہ یقین نہیں تو یہاں اسے خدا کا خیال کیونکر آرہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کارل مارکس منتشر خیالات کا مالک تھا جسے خود بھی اپنے خیالات پہ مکمل یقین نہیں تھا۔دوسری بات یہ ہے کہ خدا سے جنگ کے یہ خیالات شیطان کی پوحا کرنے والے یوپ کے ایک خاص طبقے کے ہیں جن کا تعلق یہودی خفیہ تنظیم فری میسن سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ مؤرخ کارل مارکس کو شیطان کا پجاری سمجھتے ہیں۔
اپنی ایک اور نظم میں مارکس لکھتا ہے
,,میں حقارت کے ساتھ اپنے ہاتھوں کے جنگ کے دستانے پھینک دوں گا
اور دنیا کے چہرے میں انسانیت کی تباہی کو دیکھوں گا
جس کا زوال میرے غصے کو کم نہیں کر سکے گا
اور دنیا کی تباہی کے بعد میں اس دنیا میں خدا کی طرح گھوموں گا
اور اپنے الفاظ کو ایک قوت دے کر اپنے آپ کو خدا کے برابر سمجھوں گا''
یہی وہ اس کے خیالات ہیں جن کی وجہ سے ریورنڈ ومبرانڈ اور دوسرے تجزیہ نگار اسے شیطان کا پجاری اور انسانیت کا دشمن سمجھتے ہیں۔
لندن میں کارل مارکس کے سب سے قریبی دوست فریڈرک اینگلز کا کہنا تھا کہ کارل مارکس دس ہزار شیطانوں کو اپنا دوست سمجھتا تھا۔
بیسویں سدی کے کئ کمیونسٹ قائد ین کی فہرست ریورنڈ ورمبرانڈ نے لکھی ہے جو کامریڈ اور شیطان کے پجاری تھے۔
ہاں جی یہی ہہیں وہ کامریڈز اور کیمونسٹ جن کو ہمارے کچھ نام نہاد دانشور اپنا پیشوا مانتے ہیں۔
کارل مارکس کو دنیا میں ملحدانہ اور دہریہ خیالات کے سب سے بڑے نظام کا بانی مانا جاتا ہے جس نے خیالات نے دنیا میں خدا کے وجود کے منکروں کی سب سے بڑی تعداد پیدا کی۔اس نے اپنی شاعری میں لکھا
,,میں اس خدا سے بدلہ لینا چاہتا ہوں(نعوذ بااللہ) جو اوپر بیٹھ کر سب پہ حکرانی کرتا ہے''۔
اگر حقیقت میں اسے خدا کے وجود پہ یقین نہیں تو یہاں اسے خدا کا خیال کیونکر آرہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کارل مارکس منتشر خیالات کا مالک تھا جسے خود بھی اپنے خیالات پہ مکمل یقین نہیں تھا۔دوسری بات یہ ہے کہ خدا سے جنگ کے یہ خیالات شیطان کی پوحا کرنے والے یوپ کے ایک خاص طبقے کے ہیں جن کا تعلق یہودی خفیہ تنظیم فری میسن سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ مؤرخ کارل مارکس کو شیطان کا پجاری سمجھتے ہیں۔
اپنی ایک اور نظم میں مارکس لکھتا ہے
,,میں حقارت کے ساتھ اپنے ہاتھوں کے جنگ کے دستانے پھینک دوں گا
اور دنیا کے چہرے میں انسانیت کی تباہی کو دیکھوں گا
جس کا زوال میرے غصے کو کم نہیں کر سکے گا
اور دنیا کی تباہی کے بعد میں اس دنیا میں خدا کی طرح گھوموں گا
اور اپنے الفاظ کو ایک قوت دے کر اپنے آپ کو خدا کے برابر سمجھوں گا''
یہی وہ اس کے خیالات ہیں جن کی وجہ سے ریورنڈ ومبرانڈ اور دوسرے تجزیہ نگار اسے شیطان کا پجاری اور انسانیت کا دشمن سمجھتے ہیں۔
لندن میں کارل مارکس کے سب سے قریبی دوست فریڈرک اینگلز کا کہنا تھا کہ کارل مارکس دس ہزار شیطانوں کو اپنا دوست سمجھتا تھا۔
بیسویں سدی کے کئ کمیونسٹ قائد ین کی فہرست ریورنڈ ورمبرانڈ نے لکھی ہے جو کامریڈ اور شیطان کے پجاری تھے۔
ہاں جی یہی ہہیں وہ کامریڈز اور کیمونسٹ جن کو ہمارے کچھ نام نہاد دانشور اپنا پیشوا مانتے ہیں۔
ورمبرانڈ کے مطابق کارل مارکس کا بنیادی مقصد مذہب کی تباہی تھا۔محنت کش طبقے کی بہتری کا نعرہ محض ایک ڈرامہ تھا۔یہی وہ نعرہ ہے جو کامریڈ مذہب کا مذاق اڑاتے ہوےآج بھی لگاتے ہیں۔
در حقیقت کمیونزم اور کامریڈ خیالات کی بنیاد الومیناتی(یہودیوں کی ایک خفیہ تنظیم)اور فری میسن یہودیوں نے رکھی تا کہ یورپی سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ نظریات کا ٹکراؤ کرا کے نیو ورلڈ آرڈر کی بنیاد رکھی جا سکے جس میں دولت کا محور صرف حکو مت ہو (جیسا کہ کمیونزم کا بنیادی تصور ہے)جس کی پشت پہ یہودی ہوں۔
1848 میں یہودی الومیناتی خفیہ تنظیم کے بارہ سرکردہ افراد جن کو League of twelve just mem of illuminatiکہا جاتا تھا،نے کارل مارکس کو اس کی کتاب Communist manifesto لکھنے کے لیےرقم فراہم کی۔یہی وہ کتاب ہے جس پہ کمیونسٹ اور کامریڈ خیالات کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
ریورنڈ ورمبرانڈ کے مطابق
,, گواسپی میزینی(اس زمانے کا مشہور یہودی فری میسن)کہتا ہے کہ کارل مارکس تباہ کن خیالات رکھتا تھا۔میں نے اس سے دوستی جاری رکھی۔یہودی انسائیکلو پیڈ یا کے مطابق میزینی اور کارل مارکس کو فرسٹ انٹر نیشنل کی دستاویز تیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس کے مطابق نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کے لیے تین عالمی جنگیں کرائ جائیں گی۔اس کا مطلب ہے کہ میزینی اور کارل مارکس درحقیقت ایک ہی یہودی پرندے کے گویا دو پر تھے''۔
گواسیپی میزینی اٹلی سے تعلق رکھنے والا یہودی فری میسن تھا جس کے ساتھی مل کر کارل مارکس نے 1864 میں پہلی عالمی کمیونسٹ کانفرنس کی جو کہ حقیقت میں خفیہ یہودی ایجنڈا تھا۔
مزید برآں یہ کہ سابقہ یہودی فری میسن ڈاک ماکوئس نے انکشاف کیا کہ اسے فری میسن یہودیوں نے بتایا تھا کہ کمیونزم درحقیقت الومیناتی یہودیوں کے اظہار کا ایک اور طریقہ ہے۔لہٰذا کمیونزم اور کامریڈ خیالات کی بنیاد یہودی الومیناتیوں نی رکھی اور کارل مارکس،لینن،سٹالن سے ماؤزے تنگ اور گوربا چوف تک سب کمیونسٹ لیڈر مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کی جدوجہد کرتے رہے۔
کمیونزم درحقیقت فری میسن کی ایک شاخ ہے۔اس کی ایک مثال اوڈیسا (یوکرائن،روس)میں Baphomet شیطان کا وہ مجسمہ ہے جس کی کمیونسٹ پوجا کرتے ریے۔اس کا مطلب ہے کہ کیونسٹ درپردہ یہودی اور شیطان کے پحاری تھے۔
کارل مارکس بھی درحقیقت ایک یہودی فری میسن تھا۔اس کی کئ تصاویر ایسی ہیں جن میں اسے اپنا ایک ہاتھ کوٹ میں چھپا کے فری میسن کی ایک مخصوص علامت بناتے دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن اس کی حقیقت کو چھپا کے رکھا گیا حیسا کہ یہودی دستاویزات میں لکھا ہے
,,اس سے پہلے کہ عوام چیزوں کی صحیح حقیقت کو پائے،ہم حقیقت کو میٹھے لگنے والے الفاظ کے پردوں میں چھپا دیں گے'۔
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو ہر بات کو یہودیوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔بلکہ میں چاہوں گا کہ اگر کوئ بات سچ ہے تو اس کی دلیل اور ثبوت سے وضاحت کروں۔اگر کسی کو میری دلیل پہ اعتراض ہے اور وہ اسے جھوٹا ثابت کر سکتا ہے تو وہ اسے جھوٹ بھی دلیل سے ثابت کرے گا اور میں پھر کوشش کروں گا کہ اسے مستند دلیل دے کے اسے چپ ہونے یا ماننے پہ مجبور کر دوں۔
قارئین آج کل ہمارے ہاں مذہب،ملک،معاشرتی نظریات اور تاریخی حقائق کو جھٹلا دینے والے اور صرف مادہ پرست ذہن رکھنے والے کچھ نام نہاد تعلیم یافتہ دانشوروں،فلاسفروں اور تجزیہ نگاروں کا ایک ایسا گروہ بن چکا ہے جن کی نظر میں کمیونسٹ،سوشلسٹ اور آزاد خیالات کے علاوہ دنیا کا ہر مذہب،ہر فلسفہ،ہر توجیہہ اور نظریہ غلط ہے۔ان خیالات رکھنے والوں کو عام زبان میں کامریڈز کہا جاتا ہے۔یہ حضرات غربت،محنت کش طبقے کی حمایت کی آڑ میں کچھ ان نظریات کا پرچار کر رہے ہیں جن کے مطابق خدا کو نعوذ باللہ غریب کے مسائل سے کوئ دلچسپی نہیں،مذہب ہر برائ کی جڑ ہے وغیرہ وغیرہ۔ان خیالات کی بنیاد 1814 میں پروشیا میں پیدا ہونے والے ظاہراً ملحد اور درپردہ یہودی کارل مارکس کے نظریات پہ رکھی گئی ہے۔آئیے ذرا کارل مارکس کون تھا،اس کی حقیقت اور نظریات کیا تھے،اس کا کچھ تاریخی حوالہ جات سے جائزہ لیتے ہیں۔
جو بات عوام کو بتائ جاتی ہے اس کے مطابق کارل مارکس 1814 میں پروشیا میں پیدا ہونے والا ایک عیسائ تھا جس نے اپنی کتاب Communist manifesto لکھ کر کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظریات کی بنیاد رکھی۔اس کے نظریات پہ یقین رکھنے والوں کو کامریڈ کہا جاتا ہے۔
کارل مارکس اپنی کتابوں اورفلسفیانہ نظریات کے پرچار کے دوران ہمیشہ یہ دعوٰی کرتا رہا کہ توجیہہ اور وجہ کی دنیا میں خدا کے وجود کی کوئ جگہ نہیں۔اس کے مطابق جس طرح ایک ملک کی کرنسی کی دوسرے ملک میں کوئ گنجائش نہیں ہوتی اس طرح ایک ملک میں دوسرے مذہب کے خدا کی بھی کوئ گنجائش نہیں ہوتی۔
اس بات کا جواب یہ ہے کہ وہ فلسفہ جس پہ نام نہاد زمان و مکان کے تصور کی بنیاد رکھ کر اور خدا کے وجود کو اس کا پابند بنا کر خدا کے وجود کا انکار کیا گیا ہے ،اس کو کارل مارکس 1884 میں مرنے کے 32 سال بعد 1908 میں پیش ہونے والے آئن سٹائن کے نظریہ اضافت یا تھیوری آف ریلیٹویٹی نے مسترد کردیا ہے۔اس کے مطابق ٹائم اینڈ سپیس یا زمان و مکان کا وجود مادے کی بقا کے لیے لازمی نہیں۔لہٰذا جب زمان و مکان عام مادے کی بقا کے لیے مطلق کو لازم نہیں تو خدا کے وجود کے لیےبھی مطلق نہیں یعنی اللہ اپنے وجود کے لیے زمان و مکان کا پابند نہیں۔دوسرا یہ کہ حال ہی میں سائنسدانوں نے انرجی یا توانائی کی ایسی قسم دریافت کی ہے جس نے تمام مادے کو باہم منسلک کر رکھا ہے،یہ توانائ ٹائم اور سپیس پہ منحصر نہی،اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے زیادہ ہے ،یہ تمام مادے اور اس کی تبدیلیوں کا پہلے سے علم رکھتی ہے اور کائنات کے ہر ذرے میں موجود ہے۔اب یہ توانائی اللہ کے سوا اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔اب سائنس نے خود در حقیقت اللہ کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے
,, ہم ان کو کائنات اور خود ان کے وجود میں ایسی نشانیاں دکھائیں گے کہ ان پر واضح ہو جائے گا کہ ہم نے سچ فرمایا۔''
اب کامریڈ حضرات کو چاہیے کہ جس فلسفے اور سائنس کی وہ بات کرتے ہیں،اسی سائنس کے مطابق اللہ کے وجود اور اس کے لازم اور مطلق ہونے کو بھی مان لیں کیونکہ سائنس نے ان کے پیشوا کارل مارکس کے خدا کے وجود کے نہ ہونے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔
کارل مارکس کے مطابق مادہ ہر چیز کی سب سے طاقتور اور لاجواب وجہ ہے۔اب ہم نے اوپر آپ کو سائنسی دلیل دی کہ نظریہ اضافت یا ریلیٹویٹی کے مطابق خود مادہ یا Matter اپنے وجود کے کو برقرار رکھنے کے لیے ایک ایسی توانائی پہ منحصر ہے جس نے اس کے ذرات کو باہم یکجا کر رکھا ہے۔اب جو مادہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیےخود توانائی پہ منحصر ہے وہ سب سے طاقتور اور لاجواب کیسے ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب ہے وہ خفیہ توانائی یا اللہ ہی سب سے طاقتور ہے جس نے اس مادے کے ذرات کو منتشر ہو نے سے روک رکھا ہے۔
کارل مارکس کے مطابق کسی بھی معاشرے کے تمام اجزا میں سب سے اہم جزو معاشی حالت ہے۔اس معاشی پہلو کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ مذہب کو امیر طبقے کا ہتھیار اور خاص مفادات کے حصول کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔اس کے مطابق مذہب دبے ہوئے لوگوں کا احتجاج اور انسانیت کے لیےایک ہیروئن کا نشہ ہے جو انہیں حقائق سے دور کر دیتاہے۔اس کے مطابق فلسفے کو چاہیےکہ وہ انسان کو اس کا اصل بتائے تا کہ پھر جنت کا تصور زمین کے تصور اور مذہب کا تصور سیاست کے تصور میں تبدیل ہو جائے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ کسی معاشرے کی بقا کے لیے اگر معاشی عامل کو ہی سب سے اہم عامل تصور کر لیا جاۓ اور انسان کو آزاد چھوڑ دیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔اس کے لیے آپ یورپی ممالک کو دیکھ لیں جہاں معاشی ترقی ہوئ اور انسان کی ساری توجہ مادہ پرستی کی طرف ہوئ۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کے ان ممالک کی آبادی میں اضافے کی شرح منفی میں چلی گئی اور اب ان کو اپنی نسل کے مٹ جانے کی فکر پڑ گئی ہے۔اور دوسری بات یہ کہ اگر معاشرتی عامل ہی معاشرے کے لیے سب سے اہم ہے تو انسان کو یہ کون بتائے گا کہ اس عامل کے حصول کے لیے کیا جائز ہے اور کیا غلط۔تیسری بات یہ کہ جس انسان کا مطمع نظر صرف مادہ ہو تو اس کو آخرت،قبر قیامت کا تصور اور خیال نہ ہوتے ہوئے اس کی زندگی اسے ان معاشی مفادات کے حصول کے لئے اس سے کتنے ناجائز کام کرائےگی۔اگر معاشی عامل ہی سب سے بڑا عامل ہے تو تمام تر معاشی ترقی کے ساتھ بھی یورپی ممالک کی نسلیں مدر پدر آزاد ہونے اور خاندان کے تصور ناپید ہونے کی وجہ سے مٹنے کے دہانے پہ کیوں ہیں۔اس کا مطلب ہےکہ معاشی ترقی کے علاوہ بھی بہت ساری اور چیزیں بھی ایسی ہیں جو معاشرے کی بقا کے لۓ لازم ہیں
دوسری بات کارل مارکس کی یہ کہ مذہب امیر طبقے کا ہتھیار ہے جس سے وہ خاص مفادات حاصل کر تا ہے۔اس بات کا جواب یہ ہے ایک طرف کارل مارکس مفادات اور معیشت کے لیے مذہب کو لازمی نہیں سمجھتا اور دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ مذہب خاص مفادات کے حصول کا ذریعہ ہے۔یہ دوہرا معیار ہوا۔اور بات یہ کہ دنیا میں ہر چیز کے دو استعمال ہیں۔ایک اچھا اور ایک برا۔اگر کوئ چھری کو پھل کاٹنے کے لیے استعمال کرے تویہ اچھا استعمال ہے اور اگر کوئ اسی چھری کو کسی کا گلا کاٹنے کے لیے استعمال کرے تویہ اس کا غلط استعمال ہے۔اب بات یہ کہ ایک ایسی چز یعنی مذہب جو انسان کو دنیا کے فانی ہونے،آخرت،قبر،قیامت کا بتاتے ہوئے اسے جائز بات کی تلقین کرتی ہے تو اگر کوئ مولوی،ملا،مسٹر،دنیا دار کوئ بھی اس کا غلط استعمال کر لے تو یہ چیز یعنی مذہب غلط نہیں ہو جائے گا۔غلط وہ ہوگا جس نے اس کا غلط استعمال نہیں کیا۔جس طرح چھری سے کسی کا قتل ہو جانے سے ہم چھری کو برا نہیں کہ سکتے اس طرح کسی کی طرف سے مذہب کے غلط استعمال سے ہم مذہب کو غلط نہیں کہ سکتے۔
کارل مارکس کی دوسری بات کہ مذہب غریب لوگوں کا احتجاج ہے اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے تو اس کا جواب یہ ہی کہ یورپ میں سب سے زیادہ مذہب پرستی پولینڈ،سپین،پرتگال ،آئرلینڈ میں ہے۔وہاں کے لوگ معاشی ترقی کے ساتھ بھی مذہب سے دور کیوں نہیں ہوئے۔خلیج اور عرب ممالک کے مسلمان اپنی معاشی ترقی کے بعد بھی مذہب سے دور نہیں ہوئے۔پھر کیسے کیا جا سکتا ہے کہ مذہب غربت کا اظہار ہے۔مارکس جیسے نام نہاد فلسفی کو یہ چھوٹی سی حقیقت کیوں نظر نہیں آئ۔
کارل مارکس کو دنیا میں ملحدانہ اور دہریہ خیالات کے سب سے بڑے نظام کا بانی مانا جاتا ہے جس نے خیالات نے دنیا میں خدا کے وجود کے منکروں کی سب سے بڑی تعداد پیدا کی۔اس نے اپنی شاعری میں لکھا
,,میں اس خدا سے بدلہ لینا چاہتا ہوں(نعوذ بااللہ) جو اوپر بیٹھ کر سب پہ حکرانی کرتا ہے''۔
اگر حقیقت میں اسے خدا کے وجود پہ یقین نہیں تو یہاں اسے خدا کا خیال کیونکر آرہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کارل مارکس منتشر خیالات کا مالک تھا جسے خود بھی اپنے خیالات پہ مکمل یقین نہیں تھا۔دوسری بات یہ ہے کہ خدا سے جنگ کے یہ خیالات شیطان کی پوحا کرنے والے یوپ کے ایک خاص طبقے کے ہیں جن کا تعلق یہودی خفیہ تنظیم فری میسن سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ مؤرخ کارل مارکس کو شیطان کا پجاری سمجھتے ہیں۔
اپنی ایک اور نظم میں مارکس لکھتا ہے
,,میں حقارت کے ساتھ اپنے ہاتھوں کے جنگ کے دستانے پھینک دوں گا
اور دنیا کے چہرے میں انسانیت کی تباہی کو دیکھوں گا
جس کا زوال میرے غصے کو کم نہیں کر سکے گا
اور دنیا کی تباہی کے بعد میں اس دنیا میں خدا کی طرح گھوموں گا
اور اپنے الفاظ کو ایک قوت دے کر اپنے آپ کو خدا کے برابر سمجھوں گا''
یہی وہ اس کے خیالات ہیں جن کی وجہ سے ریورنڈ ومبرانڈ اور دوسرے تجزیہ نگار اسے شیطان کا پجاری اور انسانیت کا دشمن سمجھتے ہیں۔
لندن میں کارل مارکس کے سب سے قریبی دوست فریڈرک اینگلز کا کہنا تھا کہ کارل مارکس دس ہزار شیطانوں کو اپنا دوست سمجھتا تھا۔
بیسویں سدی کے کئ کمیونسٹ قائد ین کی فہرست ریورنڈ ورمبرانڈ نے لکھی ہے جو کامریڈ اور شیطان کے پجاری تھے۔
ہاں جی یہی ہہیں وہ کامریڈز اور کیمونسٹ جن کو ہمارے کچھ نام نہاد دانشور اپنا پیشوا مانتے ہیں۔
کارل مارکس کو دنیا میں ملحدانہ اور دہریہ خیالات کے سب سے بڑے نظام کا بانی مانا جاتا ہے جس نے خیالات نے دنیا میں خدا کے وجود کے منکروں کی سب سے بڑی تعداد پیدا کی۔اس نے اپنی شاعری میں لکھا
,,میں اس خدا سے بدلہ لینا چاہتا ہوں(نعوذ بااللہ) جو اوپر بیٹھ کر سب پہ حکرانی کرتا ہے''۔
اگر حقیقت میں اسے خدا کے وجود پہ یقین نہیں تو یہاں اسے خدا کا خیال کیونکر آرہا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ کارل مارکس منتشر خیالات کا مالک تھا جسے خود بھی اپنے خیالات پہ مکمل یقین نہیں تھا۔دوسری بات یہ ہے کہ خدا سے جنگ کے یہ خیالات شیطان کی پوحا کرنے والے یوپ کے ایک خاص طبقے کے ہیں جن کا تعلق یہودی خفیہ تنظیم فری میسن سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ کچھ مؤرخ کارل مارکس کو شیطان کا پجاری سمجھتے ہیں۔
اپنی ایک اور نظم میں مارکس لکھتا ہے
,,میں حقارت کے ساتھ اپنے ہاتھوں کے جنگ کے دستانے پھینک دوں گا
اور دنیا کے چہرے میں انسانیت کی تباہی کو دیکھوں گا
جس کا زوال میرے غصے کو کم نہیں کر سکے گا
اور دنیا کی تباہی کے بعد میں اس دنیا میں خدا کی طرح گھوموں گا
اور اپنے الفاظ کو ایک قوت دے کر اپنے آپ کو خدا کے برابر سمجھوں گا''
یہی وہ اس کے خیالات ہیں جن کی وجہ سے ریورنڈ ومبرانڈ اور دوسرے تجزیہ نگار اسے شیطان کا پجاری اور انسانیت کا دشمن سمجھتے ہیں۔
لندن میں کارل مارکس کے سب سے قریبی دوست فریڈرک اینگلز کا کہنا تھا کہ کارل مارکس دس ہزار شیطانوں کو اپنا دوست سمجھتا تھا۔
بیسویں سدی کے کئ کمیونسٹ قائد ین کی فہرست ریورنڈ ورمبرانڈ نے لکھی ہے جو کامریڈ اور شیطان کے پجاری تھے۔
ہاں جی یہی ہہیں وہ کامریڈز اور کیمونسٹ جن کو ہمارے کچھ نام نہاد دانشور اپنا پیشوا مانتے ہیں۔
ورمبرانڈ کے مطابق کارل مارکس کا بنیادی مقصد مذہب کی تباہی تھا۔محنت کش طبقے کی بہتری کا نعرہ محض ایک ڈرامہ تھا۔یہی وہ نعرہ ہے جو کامریڈ مذہب کا مذاق اڑاتے ہوےآج بھی لگاتے ہیں۔
در حقیقت کمیونزم اور کامریڈ خیالات کی بنیاد الومیناتی(یہودیوں کی ایک خفیہ تنظیم)اور فری میسن یہودیوں نے رکھی تا کہ یورپی سرمایہ دارانہ اور کمیونسٹ نظریات کا ٹکراؤ کرا کے نیو ورلڈ آرڈر کی بنیاد رکھی جا سکے جس میں دولت کا محور صرف حکو مت ہو (جیسا کہ کمیونزم کا بنیادی تصور ہے)جس کی پشت پہ یہودی ہوں۔
1848 میں یہودی الومیناتی خفیہ تنظیم کے بارہ سرکردہ افراد جن کو League of twelve just mem of illuminatiکہا جاتا تھا،نے کارل مارکس کو اس کی کتاب Communist manifesto لکھنے کے لیےرقم فراہم کی۔یہی وہ کتاب ہے جس پہ کمیونسٹ اور کامریڈ خیالات کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
ریورنڈ ورمبرانڈ کے مطابق
,, گواسپی میزینی(اس زمانے کا مشہور یہودی فری میسن)کہتا ہے کہ کارل مارکس تباہ کن خیالات رکھتا تھا۔میں نے اس سے دوستی جاری رکھی۔یہودی انسائیکلو پیڈ یا کے مطابق میزینی اور کارل مارکس کو فرسٹ انٹر نیشنل کی دستاویز تیار کرنے کا حکم دیا گیا تھا جس کے مطابق نیو ورلڈ آرڈر نافذ کرنے کے لیے تین عالمی جنگیں کرائ جائیں گی۔اس کا مطلب ہے کہ میزینی اور کارل مارکس درحقیقت ایک ہی یہودی پرندے کے گویا دو پر تھے''۔
گواسیپی میزینی اٹلی سے تعلق رکھنے والا یہودی فری میسن تھا جس کے ساتھی مل کر کارل مارکس نے 1864 میں پہلی عالمی کمیونسٹ کانفرنس کی جو کہ حقیقت میں خفیہ یہودی ایجنڈا تھا۔
مزید برآں یہ کہ سابقہ یہودی فری میسن ڈاک ماکوئس نے انکشاف کیا کہ اسے فری میسن یہودیوں نے بتایا تھا کہ کمیونزم درحقیقت الومیناتی یہودیوں کے اظہار کا ایک اور طریقہ ہے۔لہٰذا کمیونزم اور کامریڈ خیالات کی بنیاد یہودی الومیناتیوں نی رکھی اور کارل مارکس،لینن،سٹالن سے ماؤزے تنگ اور گوربا چوف تک سب کمیونسٹ لیڈر مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کی جدوجہد کرتے رہے۔
کمیونزم درحقیقت فری میسن کی ایک شاخ ہے۔اس کی ایک مثال اوڈیسا (یوکرائن،روس)میں Baphomet شیطان کا وہ مجسمہ ہے جس کی کمیونسٹ پوجا کرتے ریے۔اس کا مطلب ہے کہ کیونسٹ درپردہ یہودی اور شیطان کے پحاری تھے۔
کارل مارکس بھی درحقیقت ایک یہودی فری میسن تھا۔اس کی کئ تصاویر ایسی ہیں جن میں اسے اپنا ایک ہاتھ کوٹ میں چھپا کے فری میسن کی ایک مخصوص علامت بناتے دیکھا جا سکتا ہے۔لیکن اس کی حقیقت کو چھپا کے رکھا گیا حیسا کہ یہودی دستاویزات میں لکھا ہے
,,اس سے پہلے کہ عوام چیزوں کی صحیح حقیقت کو پائے،ہم حقیقت کو میٹھے لگنے والے الفاظ کے پردوں میں چھپا دیں گے'۔
کارل مارکس حقیقت میں پروشیا کے ایک یہودی خاندان میں پیدا ہوا تھا۔اس کا یہودی نام چیم ہرشل موردیکائ ہے جب کہ اس کے والد کا نام ہرشل موردیکائ اور والدہ کا نام ہی نیٹ پریسبرگ تھا۔اس کا والد اور باقی آباؤ اجداد 1700 سے یہودی ربی چلے آرہے تھے۔اس کی پیدائش سے پہلے 1813 میں اس کا باپ یہودی خفیہ تنظیم فری میسن کا رکن بن گیا۔
1849 میں مارکس لندن چلا گیا جہاں مشہور یہودی خاندان روتھ شیلڈ سے تعلق رکھنے والا لیونل ڈی روتھ شیلڈ لندن کا ایم پی تھا۔اس طرح کارل مارکس مشہور یہودی خاندان روتھ شیلڈ سے تعلق رکھتا تھا۔اس زمانے میں مذہب کی تباہی کے ایجنڈ ے پر کام کرتے ہوئے روتھ شیلڈ اور باقی سرکردہ یہودی یورپ میں پروٹسٹنٹ نظریات کو فرو غ دے رہے تھے۔
مارکس کے روتھ شیلڈ خاندان سے تعلق کا انکشاف سب سے پہلے فرسٹ انٹرنیشنل کے خفیہ منصوبے کے اس کے ساتھی میخائل بیکونن نے کیا۔اس نے لکھا
,,دنیا ایک طرف مارکس کے ہاتھوں اور دوسری طرف روتھ شیلڈ کے ہاتھوں تباہی کے دہانے پہ ہے۔ایک سوشلسٹ کارل مارکس اور یہودی بنک کے مالک روتھ شیلڈ کے درمیان کیا تعلق ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب ہے جہاں کامریڈ اور کمیونسٹ کی مرکزی حکومت ہو گی،وہاں ایک مرکزی یہودی بنک بھی ہو گا جو اس کمیونسٹ حکومت کی دولت کی حفاظت کرے گااور جہاں یہ بنک ہوگا وہاں عوام کا خون چوسنے والی یہودی قوم بھی کمیونسٹ اور کامریڈ حکومت کے روپ میں ہوگی۔''
سوویت کمیونسٹ ہمیشہ کارل مارکس کی یہودی حیثیت کو چھپا نے کی کوشش کرتے رہے تا کہ کسی کو بھی سوویت کمیونسٹ اور کامریڈ حکومت پہ حقیقت میں یہودی ریاست ہونے کا شک نہ ہو۔
کمیونسٹ اور کامریڈ سے یہودی تعلق تب مزید واضح ہو جاتا ہے جب یہ پتہ چلتا ہے کہ خفیہ یہودی گروہ League of just یا Bun der Grechten کو رقم فراہم کرنے والے روتھ شیلڈ نے اس کی حقیقت چھپا نے کے لیے بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے Bund det Kummunisten یا League of communists (کمیونسٹ کی جماعت) رکھ دیا تا کہ کسی کو اس کے حقیقت میں یہودی تنظیم ہونے کا پتہ نہ چلے۔اسی تنظیم نے کارل مارکس کو کمیونزم کی بنیاد ی کتاب Communist manifesto لکھنے کے لیے رقم فراہم کی۔اس تنظیم میں کئ اعلٰی سطح کے یہودی شامل تھے جن میں اوپن ہیمر خاندان کا ایک شخض بھی تھا۔یہی وہ اوپن ہیمر فیملی ہے جس کے سائنس دان رابرٹ اوپن ہیمر کو امریکی صدر ہیری ٹرومین نے پہلے ایٹم بم کی تیاری کا پروجیکٹ دیا۔اس طرح پہلے تباہی کی ہتھیار کی تیاری کا سائنسدان اور کارل مارکس دونوں یہودی تھے۔اب ان کامریڈز کو اپنا دماغ ٹھیک کر لینا چاہئے جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹم بنانے پہ انسانیت کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ پہلے ایٹم بم کا بنیادی سائنسدان اور ان کی کمیونسٹ اور کامریڈ خیالات کے بانی درحقیقت خفیہ یہودی تنظیم الومیناتی کے رکن تھے نہ کہ محنت کش طبقے اور انسانیت کے نجات دہندہ۔
1776 میں ایک مشہور یہودی الومیناتی وشاپ( Weishaupts) نے یورپی حکومتوں کو یہودیو ں کی طرف سے اپنے قبضے میں مینے کے منصوبے کا آغاز کیا۔مگر اس کا راز فاش ہو گیا۔یہ جدید دور میں یہودیوں کی طرف سے حکومتوں اور ملکو کو خفیہ طعر پر اپنے قبضے میں لینے کی پہلی سازش تھی۔اس کے خیالات سے جرمنی میں سختی سے نمٹا گیا۔دوسری حکومتوں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی اور یہودی فرانس کے بادشاہ لوئیس 16 کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوگئے۔اس طرح وہ انقلاب فرانس جس کو فخر سے انقلاب کہا جاتا ہے اس کی پشت پہ حکومتوں کو قبضہ میں لینے کی درپردہ یہودی سازش تھی۔یہی انقلابی یہودی جرمنی میں لیگ آف جسٹ کے نام سے ظاہر ہوئے مگر یہ راز فاش ہو گیا۔جس پر کارل مارکس اور اس کے باقی ممبران کو جرمنی سے جلا وطن کر دیا گیا۔یہودیوں نے اس کے بعد حکومتوں کو قبضے میں لینے کی نئ حکمت عملی تیار کی جسے کامریڈ اور کمیونزم کا نظام کیا گیا۔الو میناتی کے خفیہ گروہ لیگ آف جسٹ کا نام تبدیل کر کے لیگ آف کمیونزم رکھ دیا گیا۔یوں کامریڈ،کمیونزم اور محنت کش طبقے کی جدوجہد کے میٹھے نعرے سے خفیہ طور پر حکومتوں کو خفیہ یہودی کنٹرول میں دینے کے منصوبے پہ کام شروع ہو گیا اور اس میں وہ بہت کامیاب رہے۔
فرانس میں جب نپولین برسر اقتدار آیا تو اس نے ان کی آزادانہ سرگرمیاں برداشت نہ کیں اور ان کو دبا دیا مگر یہ لوگ فرانس میں لیگ آف جسٹ کے خفیہ نام سے کام کرتے رہے بعد میں کارل مارکس بھی جس کا رکن بن گیا۔کارل مارکس کو مشہور الومیناتی یہودی ایڈم وشاپ کی تصنیفات کو ازسر نو مرتب کرنے کا حکم دیا گیا جو 1830 میں مر چکا تھا مگر لیگ آف جسٹ کے کارل مارکس سمیت باقی ارکان اس کا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔
1842 میں کارل مارکس نے مزید خفیہ یہودی کنٹرول کے اور منصوبوں پر کام کرنے کے لیے کمیونزم کا تصور ایجاد کیا۔اس نے لندن میں لیگ آف جسٹ کی سربراہی میں فریڈرک اینگلز کے ساتھ کمیونزم اور کامریڈز کی مشہور کتاب The communists manifesto لکھنے کا آغاز کیا جو کہ 1848 میں مکمل ہوئ اور اس کے ساتھ ہی لیگ آف جسٹ کی خفیہ یہودی تنظیم کا نام تبدیل کرکے لیگ آف کمیونزم رکھ دیا گیا۔
کمیونسٹ یکم مئ کو اپنے انقلاب کی برتھ ڈے مناتے ہیں کیونکہ یہی وہ دن تھا جس دن ایڈم وشاپ نے بدنام زمانہ یہودی تنظیم الومیناتی کی بنیاد رکھی تھی۔ اور یہ بات بھی نوٹ کرنی چاہیے کہ کمیونسٹ اور کامریڈ اپنی علامت کے طور پہ کبھی جو پانچ کونوں والا ستارہ یا پینٹا گرام استعمال کرتے ہیں وہ درحقیقت یہودیت کا مذہبی نشان داؤدی ستارہ ہے۔کامریڈز کی طرف سے سرخ رنگ،سرخ صبح اور سرخ انقلاب کے لیے سرخ رنگ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ مشہور یہودی سودی بنکار خاندان روتھ شیلڈ کے سربراہ میئر امشل روتھ شیلڈ کے پانچ بیٹے تھے اور اس خاندان کے لئے روتھ شیلڈ یا سرخ شیلڈ کا نام آباؤ اجداد کے گھر کے سرخ رنگ سے اخذ کیا گیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ روتھ شیلڈ نے اپنے خفیہ کمیونسٹ اور کامریڈ انقلاب کے لیے سرخ رنگ اختیار کیا۔
الومیناتی کے سرکردہ افراد جیسا کہ اس کے بانی ایڈم وشاپ اور روتھ شیلڈ نے اس کامریڈ انقلاب کے بارے میں کہا تھا
,, یہ سرخ عفریت ہوگا جو ایک معمولی حیثیت سے اوپر کو اٹھے گا۔''
1890 میں اس یہودی کمیونزم کی تنظیم لیگ آف کمیونزم نے روس سے تعلق رکھنے والے جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے ولادی میر الیچ اولیانوف Viladi Mir Iliych Ulianov کو ساتھ ملا لیا جس نے اپنا نام تبدیل کرکے نکولائ لینن رکھ دیا۔یہی وہ نکولائ لینن ہے جس نےیورپی اور امریکی یہودی بنکاروں کی مدد سے 1917 میں زار روس کا تختہ الٹ کر روس میں کمیونسٹ،کامریڈ اور سوویت انقلاب برپا کیا۔اس انقلاب میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔مذہب کو انسانیت کا قاتل کہنے والے ان کامریڈ ز کو یہ نظر نہیں آتا کہ روس میں ان کے انقلاب اور بعد میں دو عالمی جنگوں میں ان کی شرکت سے پانچ کروڑ سے زیادہ انسان مارے گئے۔ان کو صرف مذہب ہی قاتل نظر آتا ہے اور اپنے قتل بھول جاتے ہیں۔
روس میں کمیونسٹ انقلاب لانے والے لینن نے اپنے خیالات کارل مارکس کی کتاب کمیونسٹ مینی فسٹو سے لیے جس کی پشت پہ خفیہ یہودی الومیناتی اور روتھ شیلڈ تھے۔
گرے ایلن جو کہ الو میناتی پہ مشور تصنیف None dare call it conspiracyکا مصنف ہے وہ لکھتا ہے کہ کارل مارکس کی کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو کے پڑھنے کے بعد اس کے تین خلاصے نکلتے ہیں
تمام جائیداد کا حکومت کی ملکیت ہونا جو خفیہ یہودی کنٹرول میں ہو
خاندانی نظام کی تباہی
مذہب کی تباہی تا کی خاندان اور مذہب کے تصور کو ختم کر کے اپنا کنٹرول مزید مضبوط کیا جا سکے۔
ایلن کے مطابق کمیونسٹ مینی فیسٹو کی کتاب کے خیالات درحقیقت کارل مارکس سے پہلے بھی یہودی خفیہ طور پر پھیلا رہے تھے جو کہ الومیناتی کے بانی ڈاکٹر ایڈم وشاپ سے لیے گئے تھے۔کارل مارکس نے صرف اتنا کیا کہ ان کو از سر نو مرتب کیا(حوالہ None Dare Call It Conspiracy, Allan, Concord Press, 1971, p. 25.
statement in his book, None Dare Call It Conspiracy, could not state it any plainer, on page 35:)
لہٰذا کمیونزم عوام کی تحریک نہیں بلکہ عوام کو استعال کر کے ملکوں اور حکومتوں کا کنٹرول ارب پتی یہودیوں کے ہا تھوں میں دینے کی تحریک ہے حس کے مطابق پہلے دنیا کے مختلف ممالک میں سوشلسٹ ریاستیں قائم کی جائیں گی پھر ان سب کو ایک ایسی طاقت کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا جس کی باگ ڈور براہ راست الومیناتیوں کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کا نام اقوام متحدہ ہوگا(حوالہ None Dare Call It Conspiracy, Allan, Concord Press, 1971, p. 25.
statement in his book, None Dare Call It Conspiracy, could not state it any plainer, on page 35:)
یہ درحقیقت عالمی یہودی بینکار ہیں جو روس،پولینڈ،کیوبا، کو بالواسطہ کنٹرول کر رہے ہیں(حوالہndall, Ph.D., Simon & Schuster, 1964)
الومیناتی کے سرکردہ افراد جیسا کہ اس کے بانی ایڈم وشاپ اور روتھ شیلڈ نے اس کامریڈ انقلاب کے بارے میں کہا تھا
,, یہ سرخ عفریت ہوگا جو ایک معمولی حیثیت سے اوپر کو اٹھے گا۔''
1890 میں اس یہودی کمیونزم کی تنظیم لیگ آف کمیونزم نے روس سے تعلق رکھنے والے جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے ولادی میر الیچ اولیانوف Viladi Mir Iliych Ulianov کو ساتھ ملا لیا جس نے اپنا نام تبدیل کرکے نکولائ لینن رکھ دیا۔یہی وہ نکولائ لینن ہے جس نےیورپی اور امریکی یہودی بنکاروں کی مدد سے 1917 میں زار روس کا تختہ الٹ کر روس میں کمیونسٹ،کامریڈ اور سوویت انقلاب برپا کیا۔اس انقلاب میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔مذہب کو انسانیت کا قاتل کہنے والے ان کامریڈ ز کو یہ نظر نہیں آتا کہ روس میں ان کے انقلاب اور بعد میں دو عالمی جنگوں میں ان کی شرکت سے پانچ کروڑ سے زیادہ انسان مارے گئے۔ان کو صرف مذہب ہی قاتل نظر آتا ہے اور اپنے قتل بھول جاتے ہیں۔
روس میں کمیونسٹ انقلاب لانے والے لینن نے اپنے خیالات کارل مارکس کی کتاب کمیونسٹ مینی فسٹو سے لیے جس کی پشت پہ خفیہ یہودی الومیناتی اور روتھ شیلڈ تھے۔
گرے ایلن جو کہ الو میناتی پہ مشور تصنیف None dare call it conspiracyکا مصنف ہے وہ لکھتا ہے کہ کارل مارکس کی کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو کے پڑھنے کے بعد اس کے تین خلاصے نکلتے ہیں
تمام جائیداد کا حکومت کی ملکیت ہونا جو خفیہ یہودی کنٹرول میں ہو
خاندانی نظام کی تباہی
مذہب کی تباہی تا کی خاندان اور مذہب کے تصور کو ختم کر کے اپنا کنٹرول مزید مضبوط کیا جا سکے۔
ایلن کے مطابق کمیونسٹ مینی فیسٹو کی کتاب کے خیالات درحقیقت کارل مارکس سے پہلے بھی یہودی خفیہ طور پر پھیلا رہے تھے جو کہ الومیناتی کے بانی ڈاکٹر ایڈم وشاپ سے لیے گئے تھے۔کارل مارکس نے صرف اتنا کیا کہ ان کو از سر نو مرتب کیا(حوالہ None Dare Call It Conspiracy, Allan, Concord Press, 1971, p. 25.
statement in his book, None Dare Call It Conspiracy, could not state it any plainer, on page 35:)
لہٰذا کمیونزم عوام کی تحریک نہیں بلکہ عوام کو استعال کر کے ملکوں اور حکومتوں کا کنٹرول ارب پتی یہودیوں کے ہا تھوں میں دینے کی تحریک ہے حس کے مطابق پہلے دنیا کے مختلف ممالک میں سوشلسٹ ریاستیں قائم کی جائیں گی پھر ان سب کو ایک ایسی طاقت کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا جس کی باگ ڈور براہ راست الومیناتیوں کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کا نام اقوام متحدہ ہوگا(حوالہ None Dare Call It Conspiracy, Allan, Concord Press, 1971, p. 25.
statement in his book, None Dare Call It Conspiracy, could not state it any plainer, on page 35:)
یہ درحقیقت عالمی یہودی بینکار ہیں جو روس،پولینڈ،کیوبا، کو بالواسطہ کنٹرول کر رہے ہیں(حوالہndall, Ph.D., Simon & Schuster, 1964)
جب ڈاکٹر ایڈم وشاپ اور روتھ شیلڈ نے اپنا دنیا کی قوموں کے لیےنیو ورلڈ آرڈر تخلیق کیا تب تک ان کے الومیناتی اور فری میسن یہودی مختلف روپ میں یورپ کی سرکردہ حکومتوں میں سرایت کر کے ان سے مرضی کے فیصلے اور بل پاس کرانے لگ گئے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی مسلم ملکوں سمیت پوری دنیا کی حکومتوں میں جاری ہے۔
آج بھی لاکھوں لوگ ان لوگوں کے انسانیت کی خدمت کے پر کشش نعرے میں آکر ایک بین الاقوامی Luciferian یہودی تحریک کا حصہ بن رہے ہیں جسے اب The plan کہا جاتا ہے۔انسانیت کو بے دین اور مذاہب کو تباہ کرنے کی اس منصوبہ بندی پر آج پہلے سے زیادہ شور سے کام جاری ہےاور اسی منصوبے کے ایک رکن ایلس بیلے نے کہا تھا کہ جو اس منصوبے میں رکاوٹ بنے اس کو بیدردی
سے ہر طرح کے ہتھیاروں سے کچل دیا جائے گا اور آج ایسا ہورہا ہے۔مذہب کو قاتل کہنے والوں کو یہ بات بھی نوٹ کرنی چاہیے کہ ان کے سیکولر پیشوا مذہب کے خلاف ہر قتل جائز قرار دیتے ہیں۔اس نیو ایج مومنٹ پلان کے مطابق اگر دنیا کو کنٹرول کرنا ہے تو اس کی آبادی کو کم کر دو۔یہی وجہ ہے کہ آج خاندانی منصوبہ بندی اور آبادی میں کمی کے منصوبوں پر تیزی سے عمل کیا جارہا ہے۔
اس نیو ورلڈ آرڈر کی تیاری کے طور پر آہستہ آہستہ دشمن ممالک کو امن کے نام پہ غیر مسلح کر دیا جائے گا۔جیسا کہ پاکستان سے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار ,, محفوظ'' ہاتھوں میں دے۔جو لوگ ایٹم بم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ یہودی نیو ورلڈ آرڈر کی سازش کا شکار ہو رہے ہیں۔سب ممالک کے ہتھیار جمع کر کے ایک مرکزی یہودی الومیناتی حکومت کی تحویل میں دے دیے جائیں گے جس کا نام آج اقوام متحدہ ہے۔
یہ سب مختلف سازشوں اور کمیونزم کے ذریعے کیا جاۓ گا جس کےخیالات ظاہراً عیسائ اور حقیقتاً جرمنی کے تلمودی سکول سے تعلیم یافتہ تلمودی یہودی کارل مارکس،روتھ شیلڈ اور الومیناتی ڈاکٹر ایڈم وشاپ سے لیے گئے ہیں۔
کارل مارکس کے خیالات کے پیچھے ایک اور یہودی موسز ہیس تھا۔اسی شخص نے پہلی بار تمام جائیداد کو حکومتی تحویل میں دینے کا تصور دیا جو کہ کمیونزم کا بنیادی تصور ہے۔یہ شخص یہودی عالم تھا اور برملا کہتا تھا کہ میرا مذہب کمیونزم اور کامریڈ ازم ہے۔اس کا کہنا تھا کہ جب تمام دولت یہودی بنکوں سے سود لینے اور ان اے کنٹرول کی جانے والی حکومت کے ہاتھ میں آجائے گی تو ہم یہودی اسے آسانی سے اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔
1860 میں مختلف اور یہودی ربیوں کے ساتھ مل کرایک یہودی کریمیکس نے ایک یہودی گروہ L,alliance israelite universelle کی بنیاد رکھی جس کا نعرہ تھا
,, تمام یہودی کامریڈ ہیں''
خود کو کامریڈ کہلوانے والے ذرا یہ حقائق بھی دیکھ لیں کہ کہیں وہ کامریڈ کے پردے میں یہودی تو نہیں ہو رہے۔یہی وہ مدر پدر آزاد تصور تھا کہ کارل مارکس شراب کے نشے میں لڑکیوں کے ساتھ مست ہو کے ایسا چیختا تھا کہ گھر کے دروازے بند کرنے پڑتے تھے کہ آواز گلی میں نہ جائے۔یہی وہ کارل مارکس ہے جسے یہودی ربی موسز ہیس جب 1841 میں اپنے ساتھ لایا تو کہا کہ کارل مارکس میرا جوان بت ہے جو قرون وسطٰی کے مذاہب اور سیاست کو موت کے گھاٹ اتار دے گا۔کارل مارکس کی تربیت ہی الومیناتیوں نے اس طریقے سے کی تھی کہ قہ مذہب اور خدا کے تصور کو مبہم بنا دے۔جیسا کہ مارکس کا دوست جارج جنگ کہتا ہے کہ اگر مارکس کا بس چلے تو خدا کو نہ صرف آسمان سے اتار دے بلکہ اس پہ مقدمہ بھی چلا دے۔یہی وہ خیالات ہیں جو مارکس کے یہودی ذہن میں الومیناتی نےڈالے اور آج ان کا کامریڈ گن گاتے پائے جاتے ہیں۔
فرسٹ انٹرنیشنل کی یہودی دستاویزات کے مرتب کرنے میں مارکس کا ساتھی بخارن شیطان کا پجاری تھا۔وہ لکھتا پے
,, شیطان ازاد سوچنے والا اور انسانیت کا مسیحا ہے۔وہ انسان سے انسانیت کی چادر اتار کے اسے آزاد سوچنے والا اور نا فرمان بناتا ہے۔''
دراصل کمیونسٹ اور کامریڈ خیالات ہی تھے جن کی بدولت یہودیوں کو روس کے کامریڈ انقلاب کی صورت میں پہلی سرزمین ملی۔اس کمیونسٹ ریاست کو ہمیشہ لندن،واشنگٹن اور نیو یارک کے یہودی بنکا روں کی طرف سے فنڈنگ کی گئی۔اسکے جھنڈے میں ایک ہتھوڑا،درانتی اور ایک ستارہ تھے جو کہ حقیقت میں یہود کا مذہبی نشان ستارہ داؤدی ہے۔
اس طرح دنیا کو خدا اور مزہب سے دوری کا درس دینے والے روسی کمیونسٹ حقیقت میں یہودی تھے۔
یہ ہے اس کمیونزم،اور کمیونسٹ اور کامریڈ خیالات کی حقیقت جس کی بنیاد پہ اسلام،پاکستان اور نظریات کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی مضمون مکمل ہوا ہے ورنہ کامریڈ خیالات کی یہودی جڑ اتنی وسیع ہے کہ اس پہ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔اس مضمون کو پڑھ کر اپنے تمام دوستوں کو شیئر کیجیے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کوئ حقیقت جاننے کے بعد گمراہی سے بچ جائے۔اس مضمون پر اپنے قیمتی تبصرے اور رائے سے لازمی آگاہ کیجئے گا۔جزاک اللہ
مضمون,,کامریڈز،کمیونزم،صیہونیت،قریبی تعلق،درپردہ حقائق'' کے کچھ اہم حوالہ جات
1849 میں مارکس لندن چلا گیا جہاں مشہور یہودی خاندان روتھ شیلڈ سے تعلق رکھنے والا لیونل ڈی روتھ شیلڈ لندن کا ایم پی تھا۔اس طرح کارل مارکس مشہور یہودی خاندان روتھ شیلڈ سے تعلق رکھتا تھا۔اس زمانے میں مذہب کی تباہی کے ایجنڈ ے پر کام کرتے ہوئے روتھ شیلڈ اور باقی سرکردہ یہودی یورپ میں پروٹسٹنٹ نظریات کو فرو غ دے رہے تھے۔
مارکس کے روتھ شیلڈ خاندان سے تعلق کا انکشاف سب سے پہلے فرسٹ انٹرنیشنل کے خفیہ منصوبے کے اس کے ساتھی میخائل بیکونن نے کیا۔اس نے لکھا
,,دنیا ایک طرف مارکس کے ہاتھوں اور دوسری طرف روتھ شیلڈ کے ہاتھوں تباہی کے دہانے پہ ہے۔ایک سوشلسٹ کارل مارکس اور یہودی بنک کے مالک روتھ شیلڈ کے درمیان کیا تعلق ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب ہے جہاں کامریڈ اور کمیونسٹ کی مرکزی حکومت ہو گی،وہاں ایک مرکزی یہودی بنک بھی ہو گا جو اس کمیونسٹ حکومت کی دولت کی حفاظت کرے گااور جہاں یہ بنک ہوگا وہاں عوام کا خون چوسنے والی یہودی قوم بھی کمیونسٹ اور کامریڈ حکومت کے روپ میں ہوگی۔''
سوویت کمیونسٹ ہمیشہ کارل مارکس کی یہودی حیثیت کو چھپا نے کی کوشش کرتے رہے تا کہ کسی کو بھی سوویت کمیونسٹ اور کامریڈ حکومت پہ حقیقت میں یہودی ریاست ہونے کا شک نہ ہو۔
کمیونسٹ اور کامریڈ سے یہودی تعلق تب مزید واضح ہو جاتا ہے جب یہ پتہ چلتا ہے کہ خفیہ یہودی گروہ League of just یا Bun der Grechten کو رقم فراہم کرنے والے روتھ شیلڈ نے اس کی حقیقت چھپا نے کے لیے بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے Bund det Kummunisten یا League of communists (کمیونسٹ کی جماعت) رکھ دیا تا کہ کسی کو اس کے حقیقت میں یہودی تنظیم ہونے کا پتہ نہ چلے۔اسی تنظیم نے کارل مارکس کو کمیونزم کی بنیاد ی کتاب Communist manifesto لکھنے کے لیے رقم فراہم کی۔اس تنظیم میں کئ اعلٰی سطح کے یہودی شامل تھے جن میں اوپن ہیمر خاندان کا ایک شخض بھی تھا۔یہی وہ اوپن ہیمر فیملی ہے جس کے سائنس دان رابرٹ اوپن ہیمر کو امریکی صدر ہیری ٹرومین نے پہلے ایٹم بم کی تیاری کا پروجیکٹ دیا۔اس طرح پہلے تباہی کی ہتھیار کی تیاری کا سائنسدان اور کارل مارکس دونوں یہودی تھے۔اب ان کامریڈز کو اپنا دماغ ٹھیک کر لینا چاہئے جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹم بنانے پہ انسانیت کا قاتل قرار دیتے ہیں۔ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ پہلے ایٹم بم کا بنیادی سائنسدان اور ان کی کمیونسٹ اور کامریڈ خیالات کے بانی درحقیقت خفیہ یہودی تنظیم الومیناتی کے رکن تھے نہ کہ محنت کش طبقے اور انسانیت کے نجات دہندہ۔
1776 میں ایک مشہور یہودی الومیناتی وشاپ( Weishaupts) نے یورپی حکومتوں کو یہودیو ں کی طرف سے اپنے قبضے میں مینے کے منصوبے کا آغاز کیا۔مگر اس کا راز فاش ہو گیا۔یہ جدید دور میں یہودیوں کی طرف سے حکومتوں اور ملکو کو خفیہ طعر پر اپنے قبضے میں لینے کی پہلی سازش تھی۔اس کے خیالات سے جرمنی میں سختی سے نمٹا گیا۔دوسری حکومتوں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی اور یہودی فرانس کے بادشاہ لوئیس 16 کا تختہ الٹنے میں کامیاب ہوگئے۔اس طرح وہ انقلاب فرانس جس کو فخر سے انقلاب کہا جاتا ہے اس کی پشت پہ حکومتوں کو قبضہ میں لینے کی درپردہ یہودی سازش تھی۔یہی انقلابی یہودی جرمنی میں لیگ آف جسٹ کے نام سے ظاہر ہوئے مگر یہ راز فاش ہو گیا۔جس پر کارل مارکس اور اس کے باقی ممبران کو جرمنی سے جلا وطن کر دیا گیا۔یہودیوں نے اس کے بعد حکومتوں کو قبضے میں لینے کی نئ حکمت عملی تیار کی جسے کامریڈ اور کمیونزم کا نظام کیا گیا۔الو میناتی کے خفیہ گروہ لیگ آف جسٹ کا نام تبدیل کر کے لیگ آف کمیونزم رکھ دیا گیا۔یوں کامریڈ،کمیونزم اور محنت کش طبقے کی جدوجہد کے میٹھے نعرے سے خفیہ طور پر حکومتوں کو خفیہ یہودی کنٹرول میں دینے کے منصوبے پہ کام شروع ہو گیا اور اس میں وہ بہت کامیاب رہے۔
فرانس میں جب نپولین برسر اقتدار آیا تو اس نے ان کی آزادانہ سرگرمیاں برداشت نہ کیں اور ان کو دبا دیا مگر یہ لوگ فرانس میں لیگ آف جسٹ کے خفیہ نام سے کام کرتے رہے بعد میں کارل مارکس بھی جس کا رکن بن گیا۔کارل مارکس کو مشہور الومیناتی یہودی ایڈم وشاپ کی تصنیفات کو ازسر نو مرتب کرنے کا حکم دیا گیا جو 1830 میں مر چکا تھا مگر لیگ آف جسٹ کے کارل مارکس سمیت باقی ارکان اس کا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔
1842 میں کارل مارکس نے مزید خفیہ یہودی کنٹرول کے اور منصوبوں پر کام کرنے کے لیے کمیونزم کا تصور ایجاد کیا۔اس نے لندن میں لیگ آف جسٹ کی سربراہی میں فریڈرک اینگلز کے ساتھ کمیونزم اور کامریڈز کی مشہور کتاب The communists manifesto لکھنے کا آغاز کیا جو کہ 1848 میں مکمل ہوئ اور اس کے ساتھ ہی لیگ آف جسٹ کی خفیہ یہودی تنظیم کا نام تبدیل کرکے لیگ آف کمیونزم رکھ دیا گیا۔
کمیونسٹ یکم مئ کو اپنے انقلاب کی برتھ ڈے مناتے ہیں کیونکہ یہی وہ دن تھا جس دن ایڈم وشاپ نے بدنام زمانہ یہودی تنظیم الومیناتی کی بنیاد رکھی تھی۔ اور یہ بات بھی نوٹ کرنی چاہیے کہ کمیونسٹ اور کامریڈ اپنی علامت کے طور پہ کبھی جو پانچ کونوں والا ستارہ یا پینٹا گرام استعمال کرتے ہیں وہ درحقیقت یہودیت کا مذہبی نشان داؤدی ستارہ ہے۔کامریڈز کی طرف سے سرخ رنگ،سرخ صبح اور سرخ انقلاب کے لیے سرخ رنگ کے استعمال کی وجہ یہ ہے کہ مشہور یہودی سودی بنکار خاندان روتھ شیلڈ کے سربراہ میئر امشل روتھ شیلڈ کے پانچ بیٹے تھے اور اس خاندان کے لئے روتھ شیلڈ یا سرخ شیلڈ کا نام آباؤ اجداد کے گھر کے سرخ رنگ سے اخذ کیا گیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ روتھ شیلڈ نے اپنے خفیہ کمیونسٹ اور کامریڈ انقلاب کے لیے سرخ رنگ اختیار کیا۔
الومیناتی کے سرکردہ افراد جیسا کہ اس کے بانی ایڈم وشاپ اور روتھ شیلڈ نے اس کامریڈ انقلاب کے بارے میں کہا تھا
,, یہ سرخ عفریت ہوگا جو ایک معمولی حیثیت سے اوپر کو اٹھے گا۔''
1890 میں اس یہودی کمیونزم کی تنظیم لیگ آف کمیونزم نے روس سے تعلق رکھنے والے جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے ولادی میر الیچ اولیانوف Viladi Mir Iliych Ulianov کو ساتھ ملا لیا جس نے اپنا نام تبدیل کرکے نکولائ لینن رکھ دیا۔یہی وہ نکولائ لینن ہے جس نےیورپی اور امریکی یہودی بنکاروں کی مدد سے 1917 میں زار روس کا تختہ الٹ کر روس میں کمیونسٹ،کامریڈ اور سوویت انقلاب برپا کیا۔اس انقلاب میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔مذہب کو انسانیت کا قاتل کہنے والے ان کامریڈ ز کو یہ نظر نہیں آتا کہ روس میں ان کے انقلاب اور بعد میں دو عالمی جنگوں میں ان کی شرکت سے پانچ کروڑ سے زیادہ انسان مارے گئے۔ان کو صرف مذہب ہی قاتل نظر آتا ہے اور اپنے قتل بھول جاتے ہیں۔
روس میں کمیونسٹ انقلاب لانے والے لینن نے اپنے خیالات کارل مارکس کی کتاب کمیونسٹ مینی فسٹو سے لیے جس کی پشت پہ خفیہ یہودی الومیناتی اور روتھ شیلڈ تھے۔
گرے ایلن جو کہ الو میناتی پہ مشور تصنیف None dare call it conspiracyکا مصنف ہے وہ لکھتا ہے کہ کارل مارکس کی کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو کے پڑھنے کے بعد اس کے تین خلاصے نکلتے ہیں
تمام جائیداد کا حکومت کی ملکیت ہونا جو خفیہ یہودی کنٹرول میں ہو
خاندانی نظام کی تباہی
مذہب کی تباہی تا کی خاندان اور مذہب کے تصور کو ختم کر کے اپنا کنٹرول مزید مضبوط کیا جا سکے۔
ایلن کے مطابق کمیونسٹ مینی فیسٹو کی کتاب کے خیالات درحقیقت کارل مارکس سے پہلے بھی یہودی خفیہ طور پر پھیلا رہے تھے جو کہ الومیناتی کے بانی ڈاکٹر ایڈم وشاپ سے لیے گئے تھے۔کارل مارکس نے صرف اتنا کیا کہ ان کو از سر نو مرتب کیا(حوالہ None Dare Call It Conspiracy, Allan, Concord Press, 1971, p. 25.
statement in his book, None Dare Call It Conspiracy, could not state it any plainer, on page 35:)
لہٰذا کمیونزم عوام کی تحریک نہیں بلکہ عوام کو استعال کر کے ملکوں اور حکومتوں کا کنٹرول ارب پتی یہودیوں کے ہا تھوں میں دینے کی تحریک ہے حس کے مطابق پہلے دنیا کے مختلف ممالک میں سوشلسٹ ریاستیں قائم کی جائیں گی پھر ان سب کو ایک ایسی طاقت کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا جس کی باگ ڈور براہ راست الومیناتیوں کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کا نام اقوام متحدہ ہوگا(حوالہ None Dare Call It Conspiracy, Allan, Concord Press, 1971, p. 25.
statement in his book, None Dare Call It Conspiracy, could not state it any plainer, on page 35:)
یہ درحقیقت عالمی یہودی بینکار ہیں جو روس،پولینڈ،کیوبا، کو بالواسطہ کنٹرول کر رہے ہیں(حوالہndall, Ph.D., Simon & Schuster, 1964)
الومیناتی کے سرکردہ افراد جیسا کہ اس کے بانی ایڈم وشاپ اور روتھ شیلڈ نے اس کامریڈ انقلاب کے بارے میں کہا تھا
,, یہ سرخ عفریت ہوگا جو ایک معمولی حیثیت سے اوپر کو اٹھے گا۔''
1890 میں اس یہودی کمیونزم کی تنظیم لیگ آف کمیونزم نے روس سے تعلق رکھنے والے جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے ولادی میر الیچ اولیانوف Viladi Mir Iliych Ulianov کو ساتھ ملا لیا جس نے اپنا نام تبدیل کرکے نکولائ لینن رکھ دیا۔یہی وہ نکولائ لینن ہے جس نےیورپی اور امریکی یہودی بنکاروں کی مدد سے 1917 میں زار روس کا تختہ الٹ کر روس میں کمیونسٹ،کامریڈ اور سوویت انقلاب برپا کیا۔اس انقلاب میں کروڑوں لوگ مارے گئے۔مذہب کو انسانیت کا قاتل کہنے والے ان کامریڈ ز کو یہ نظر نہیں آتا کہ روس میں ان کے انقلاب اور بعد میں دو عالمی جنگوں میں ان کی شرکت سے پانچ کروڑ سے زیادہ انسان مارے گئے۔ان کو صرف مذہب ہی قاتل نظر آتا ہے اور اپنے قتل بھول جاتے ہیں۔
روس میں کمیونسٹ انقلاب لانے والے لینن نے اپنے خیالات کارل مارکس کی کتاب کمیونسٹ مینی فسٹو سے لیے جس کی پشت پہ خفیہ یہودی الومیناتی اور روتھ شیلڈ تھے۔
گرے ایلن جو کہ الو میناتی پہ مشور تصنیف None dare call it conspiracyکا مصنف ہے وہ لکھتا ہے کہ کارل مارکس کی کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو کے پڑھنے کے بعد اس کے تین خلاصے نکلتے ہیں
تمام جائیداد کا حکومت کی ملکیت ہونا جو خفیہ یہودی کنٹرول میں ہو
خاندانی نظام کی تباہی
مذہب کی تباہی تا کی خاندان اور مذہب کے تصور کو ختم کر کے اپنا کنٹرول مزید مضبوط کیا جا سکے۔
ایلن کے مطابق کمیونسٹ مینی فیسٹو کی کتاب کے خیالات درحقیقت کارل مارکس سے پہلے بھی یہودی خفیہ طور پر پھیلا رہے تھے جو کہ الومیناتی کے بانی ڈاکٹر ایڈم وشاپ سے لیے گئے تھے۔کارل مارکس نے صرف اتنا کیا کہ ان کو از سر نو مرتب کیا(حوالہ None Dare Call It Conspiracy, Allan, Concord Press, 1971, p. 25.
statement in his book, None Dare Call It Conspiracy, could not state it any plainer, on page 35:)
لہٰذا کمیونزم عوام کی تحریک نہیں بلکہ عوام کو استعال کر کے ملکوں اور حکومتوں کا کنٹرول ارب پتی یہودیوں کے ہا تھوں میں دینے کی تحریک ہے حس کے مطابق پہلے دنیا کے مختلف ممالک میں سوشلسٹ ریاستیں قائم کی جائیں گی پھر ان سب کو ایک ایسی طاقت کے کنٹرول میں دے دیا جائے گا جس کی باگ ڈور براہ راست الومیناتیوں کے ہاتھ میں ہو گی اور جس کا نام اقوام متحدہ ہوگا(حوالہ None Dare Call It Conspiracy, Allan, Concord Press, 1971, p. 25.
statement in his book, None Dare Call It Conspiracy, could not state it any plainer, on page 35:)
یہ درحقیقت عالمی یہودی بینکار ہیں جو روس،پولینڈ،کیوبا، کو بالواسطہ کنٹرول کر رہے ہیں(حوالہndall, Ph.D., Simon & Schuster, 1964)
جب ڈاکٹر ایڈم وشاپ اور روتھ شیلڈ نے اپنا دنیا کی قوموں کے لیےنیو ورلڈ آرڈر تخلیق کیا تب تک ان کے الومیناتی اور فری میسن یہودی مختلف روپ میں یورپ کی سرکردہ حکومتوں میں سرایت کر کے ان سے مرضی کے فیصلے اور بل پاس کرانے لگ گئے تھے اور یہ سلسلہ آج بھی مسلم ملکوں سمیت پوری دنیا کی حکومتوں میں جاری ہے۔
آج بھی لاکھوں لوگ ان لوگوں کے انسانیت کی خدمت کے پر کشش نعرے میں آکر ایک بین الاقوامی Luciferian یہودی تحریک کا حصہ بن رہے ہیں جسے اب The plan کہا جاتا ہے۔انسانیت کو بے دین اور مذاہب کو تباہ کرنے کی اس منصوبہ بندی پر آج پہلے سے زیادہ شور سے کام جاری ہےاور اسی منصوبے کے ایک رکن ایلس بیلے نے کہا تھا کہ جو اس منصوبے میں رکاوٹ بنے اس کو بیدردی
سے ہر طرح کے ہتھیاروں سے کچل دیا جائے گا اور آج ایسا ہورہا ہے۔مذہب کو قاتل کہنے والوں کو یہ بات بھی نوٹ کرنی چاہیے کہ ان کے سیکولر پیشوا مذہب کے خلاف ہر قتل جائز قرار دیتے ہیں۔اس نیو ایج مومنٹ پلان کے مطابق اگر دنیا کو کنٹرول کرنا ہے تو اس کی آبادی کو کم کر دو۔یہی وجہ ہے کہ آج خاندانی منصوبہ بندی اور آبادی میں کمی کے منصوبوں پر تیزی سے عمل کیا جارہا ہے۔
اس نیو ورلڈ آرڈر کی تیاری کے طور پر آہستہ آہستہ دشمن ممالک کو امن کے نام پہ غیر مسلح کر دیا جائے گا۔جیسا کہ پاکستان سے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار ,, محفوظ'' ہاتھوں میں دے۔جو لوگ ایٹم بم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ یہودی نیو ورلڈ آرڈر کی سازش کا شکار ہو رہے ہیں۔سب ممالک کے ہتھیار جمع کر کے ایک مرکزی یہودی الومیناتی حکومت کی تحویل میں دے دیے جائیں گے جس کا نام آج اقوام متحدہ ہے۔
یہ سب مختلف سازشوں اور کمیونزم کے ذریعے کیا جاۓ گا جس کےخیالات ظاہراً عیسائ اور حقیقتاً جرمنی کے تلمودی سکول سے تعلیم یافتہ تلمودی یہودی کارل مارکس،روتھ شیلڈ اور الومیناتی ڈاکٹر ایڈم وشاپ سے لیے گئے ہیں۔
کارل مارکس کے خیالات کے پیچھے ایک اور یہودی موسز ہیس تھا۔اسی شخص نے پہلی بار تمام جائیداد کو حکومتی تحویل میں دینے کا تصور دیا جو کہ کمیونزم کا بنیادی تصور ہے۔یہ شخص یہودی عالم تھا اور برملا کہتا تھا کہ میرا مذہب کمیونزم اور کامریڈ ازم ہے۔اس کا کہنا تھا کہ جب تمام دولت یہودی بنکوں سے سود لینے اور ان اے کنٹرول کی جانے والی حکومت کے ہاتھ میں آجائے گی تو ہم یہودی اسے آسانی سے اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں۔
1860 میں مختلف اور یہودی ربیوں کے ساتھ مل کرایک یہودی کریمیکس نے ایک یہودی گروہ L,alliance israelite universelle کی بنیاد رکھی جس کا نعرہ تھا
,, تمام یہودی کامریڈ ہیں''
خود کو کامریڈ کہلوانے والے ذرا یہ حقائق بھی دیکھ لیں کہ کہیں وہ کامریڈ کے پردے میں یہودی تو نہیں ہو رہے۔یہی وہ مدر پدر آزاد تصور تھا کہ کارل مارکس شراب کے نشے میں لڑکیوں کے ساتھ مست ہو کے ایسا چیختا تھا کہ گھر کے دروازے بند کرنے پڑتے تھے کہ آواز گلی میں نہ جائے۔یہی وہ کارل مارکس ہے جسے یہودی ربی موسز ہیس جب 1841 میں اپنے ساتھ لایا تو کہا کہ کارل مارکس میرا جوان بت ہے جو قرون وسطٰی کے مذاہب اور سیاست کو موت کے گھاٹ اتار دے گا۔کارل مارکس کی تربیت ہی الومیناتیوں نے اس طریقے سے کی تھی کہ قہ مذہب اور خدا کے تصور کو مبہم بنا دے۔جیسا کہ مارکس کا دوست جارج جنگ کہتا ہے کہ اگر مارکس کا بس چلے تو خدا کو نہ صرف آسمان سے اتار دے بلکہ اس پہ مقدمہ بھی چلا دے۔یہی وہ خیالات ہیں جو مارکس کے یہودی ذہن میں الومیناتی نےڈالے اور آج ان کا کامریڈ گن گاتے پائے جاتے ہیں۔
فرسٹ انٹرنیشنل کی یہودی دستاویزات کے مرتب کرنے میں مارکس کا ساتھی بخارن شیطان کا پجاری تھا۔وہ لکھتا پے
,, شیطان ازاد سوچنے والا اور انسانیت کا مسیحا ہے۔وہ انسان سے انسانیت کی چادر اتار کے اسے آزاد سوچنے والا اور نا فرمان بناتا ہے۔''
دراصل کمیونسٹ اور کامریڈ خیالات ہی تھے جن کی بدولت یہودیوں کو روس کے کامریڈ انقلاب کی صورت میں پہلی سرزمین ملی۔اس کمیونسٹ ریاست کو ہمیشہ لندن،واشنگٹن اور نیو یارک کے یہودی بنکا روں کی طرف سے فنڈنگ کی گئی۔اسکے جھنڈے میں ایک ہتھوڑا،درانتی اور ایک ستارہ تھے جو کہ حقیقت میں یہود کا مذہبی نشان ستارہ داؤدی ہے۔
اس طرح دنیا کو خدا اور مزہب سے دوری کا درس دینے والے روسی کمیونسٹ حقیقت میں یہودی تھے۔
یہ ہے اس کمیونزم،اور کمیونسٹ اور کامریڈ خیالات کی حقیقت جس کی بنیاد پہ اسلام،پاکستان اور نظریات کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ہی مضمون مکمل ہوا ہے ورنہ کامریڈ خیالات کی یہودی جڑ اتنی وسیع ہے کہ اس پہ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔اس مضمون کو پڑھ کر اپنے تمام دوستوں کو شیئر کیجیے گا کیونکہ ہو سکتا ہے کوئ حقیقت جاننے کے بعد گمراہی سے بچ جائے۔اس مضمون پر اپنے قیمتی تبصرے اور رائے سے لازمی آگاہ کیجئے گا۔جزاک اللہ
مضمون,,کامریڈز،کمیونزم،صیہونیت،قریبی تعلق،درپردہ حقائق'' کے کچھ اہم حوالہ جات
[1] Masterplots Cyclopedia of World Authors, 1958, p.724,725
[2] Encyclopedia Americana, Vol.15, p.657
[3] Encyclopedia Britannica, Vol.2, p.553
[4] Masterplots Cyclopedia of World Authors, 1958, p.725
[5] Fourth Reich of the Rich, Griffin, p.249
[6] The Naked Communist, Skousen, p.112
[7] The World Book Encyclopedia, Vol.4, p.726b
[8] Wake Up America, Preston, p.51,52
[9] The Communist Manifesto, Randall, p.37
[10] Wake Up America, Preston, p.16
[11] The Hidden Dangers of the Rainbow, Cumbey, p.77
[12]Salluste, "Les origines secretes du bolchevisme", Paris, 1930, pp. 33۔34
[13]Fritz Joachim Raddatz, "Karl Marx: Eine Politische Biographie", Hamburg, 1975.)
[14]Mystery 666, page 144
[15]National Suicide” by Anthony Sutton, as well as numerous other well documented work
[16]The portable Karl Marx, page 22
Mystery 666, page 144
[2] Encyclopedia Americana, Vol.15, p.657
[3] Encyclopedia Britannica, Vol.2, p.553
[4] Masterplots Cyclopedia of World Authors, 1958, p.725
[5] Fourth Reich of the Rich, Griffin, p.249
[6] The Naked Communist, Skousen, p.112
[7] The World Book Encyclopedia, Vol.4, p.726b
[8] Wake Up America, Preston, p.51,52
[9] The Communist Manifesto, Randall, p.37
[10] Wake Up America, Preston, p.16
[11] The Hidden Dangers of the Rainbow, Cumbey, p.77
[12]Salluste, "Les origines secretes du bolchevisme", Paris, 1930, pp. 33۔34
[13]Fritz Joachim Raddatz, "Karl Marx: Eine Politische Biographie", Hamburg, 1975.)
[14]Mystery 666, page 144
[15]National Suicide” by Anthony Sutton, as well as numerous other well documented work
[16]The portable Karl Marx, page 22
Mystery 666, page 144
0 تبصرے