کیا برصغیر میں ریلوے کی تعمیر برطانیہ کا احسان ہے؟
ایک عام اور شدت سے پھیلی غلط فہمی اور تاریخی دھوکے کی اصلاح
برطانیہ کی طرف سے ریلوے نظام کے نام پہ ہندوستان میں لوٹ مار
ترجمہ و ترتیب: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون ملکی سیریز کے لحاظ سے ریل ٹرانسپورٹ کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔1870 میں برصغیر پاک و ہند میں عظیم جزیرہ نما ریلوے نیٹ ورک کا وجود میں آیا۔ ہندوستان میں ریل نقل و حمل کی تاریخ کا آغاز انیسویں صدی کے وسط میں 1850ء سے پہلے ہوا۔
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے بعد نوآبادیاتی برطانوی حکومت کے ذریعہ برصغیر میں ریلوے کو بنیادی طور پر اپنی متعدد جنگوں کے لئے فوجیوں کی نقل و حمل اورملوں کو روئی برآمد کرنے کے لئے ریلوے کو آہستہ آہستہ تیار کیا گیا۔ برصغیر میں انگریزوں کی طرف سے ریلوے کا مقصد ہندوستانی عوام کو کوئی سہولیات فراہم کرنا نہیں تھا اور برصغیر میں ریلوے میں ہندوستانی مسافروں کی سہولت کو 1947 تک بہت کم دلچسپی ملی،دلچسپی تب سامنے آئی جب ہندوستان کو آزادی ملی اور انہوں نے زیادہ مناسب انداز میں ریلوے تیار کرنا شروع کی۔1929 تک ہندوستان کے بیشتر اضلاع میں 66،000 کلومیٹر (41،000 میل) ریلوے لائنیں چل رہی تھیں۔ اس وقت ، ریلوے کچھ £ 687 ملین کی سرمائی قیمت کی نمائندگی کرتا تھا ، اور اس میں ایک سال میں 620 ملین مسافر اور تقریبا 90 ملین ٹن سامان ہوتا تھا۔ہندوستان میں ریلوے نجی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کا ایک گروپ تھا۔زیادہ تر برطانوی اسکے حصہ دار تھے اور جن کا منافع مستقل طور پر برطانیہ لوٹ گیا تھا اور اس سے برصغیر کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
تاریخ سے نابلد اور ناواقف لوگوں کی طرف سے برصغیر پاک و ہند میں وسیع ریلوے نظام کو برطانوی نوآبادیات کے فوائد کی ایک مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت اور اس کا پول ششی تھرور اور بپن چندر جیسے اسکالر کھولتے ہیں کہ یہ دعوہ تاریخی طور پہ کس قدر غلط اور جھوٹ پہ مبنی ہے جس کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنا کر ان کو انگریز اقتدار کے بارے میں دھوکے اور خوش فہمی میں رکھنے اور برصغیر پاک و ہند پہ برطانیہ کے قبضے کا جواز اور اس کی حمایت فراہم کی جاتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں ریلوے کا نظام 1837 میں شروع ہوا اور یہ ابتدا میں بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے نتیجے میں برطانوی کمپنیوں کے برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے ساتھ اشتراک سے شروع کیا گیا۔یہ نظام برصغیر کے لوگوں کے لئے کسی نعمت کی نہیں بلکہ برطانوی نوآبادیاتی لوٹ مار کی بدترین مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ برصغیر میں انگریز اقتدار کے دوران ریلوے کے نظام سے متعلقہ برطانوی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی کہ وہ زیادہ منافعے کے لئے اس کی تعمیر پر زیادہ رقم خرچ کریں، اس مقصد کے لئے انگریزوں کے زیر تسلط ہندوستانی ریلوے کمپنیوں کے اکثر لندن میں مقیم برطانوی شراکت داروں کو منافعے اور لوٹ مار کی ضمانت دی گئی اور جان بوجھ کر برصغیر میں ریلوے کی تعمیر پہ برصغیر کا خون نچوڑ کر اور برصغیر کے سرمائے سے اضافی رقم خرچ کی گئی اور اس تعمیر میں انگریز کمپنیوں نے جی بھر کے کرپشن اور لوٹ مار کی۔ 1850 اور 1860 کی دہائی میں ہندوستانی ریلوے کی فی میل کی تعمیر میں اوسطا 18،000 پاؤنڈ لاگت آئی ، جب کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک ہی وقت میں فی میل ریلوے کی تعمیر پہ 2000 پاؤنڈ لاگت آئی یعنی برصغیر میں ہر میل ریلوے کی تعمیر پہ برطانوی کمپنیوں نے سولہ ہزار پاؤنڈ اضافی رقم خرچ کی اور یہ سب برصغیر کے پیسے اور وسائل سے کیا گیا، کرپشن، بد عنوانی اور حرام خوری کی اس رقم سے انگریز کمپنیوں کو جان بوجھ کر فائدہ پہنچایا گیا اور اس مقصد کے لئے برصغیر پاک و ہند کی عوام کا خون ٹیکس اور محصولات کے ذریعے نچوڑا گیا۔ 1875 تک ، برطانوی کمپنیوں نے ہندوستان کی ضمانت شدہ ریلوے میں تقریبا 95 ملین پاؤنڈ (117 ارب ڈالر کے برابر) کی سرمایہ کاری کی تھی۔اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ کہ ان سرمایہ کاریوں میں ، ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے ممبروں اور برطانیہ میں مشینری اور اسٹیل کی فراہمی کرنے والی کمپنیوں نے شدید بدعنوانی، لوٹ مار اور حرام خوری کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریلوے لائنوں اور سامان پر متوقع خرچ سے زیادہ خرچہ آیا۔ یہ تو تھی وہ لوٹ مار جو برطانیہ نے برصغیر میں ریلوے کی تعمیر کے نام پہ کی۔ اب ذرا اس تعمیر شدہ ریلوے کا حال بھی دیکھ لیجئے جس کو آج لبرل دانشگرد برطانیہ کا احسان کہتے تھکتے نہیں۔ پہلی جنگ عظیم 1914-1918 کی آمد کے ساتھ ہی برصغیر کی ریلوے کا استعمال ہندوستان سے باہر انگریزوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بیدردی سے اور برصغیر پاک و ہند کے وسائل سے کیا گیا۔ ریلوے کی تعمیر کے دوران ہزاروں ہندوستانی مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔
جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برصغیر پاک و ہند کی ریلوے ناکارہ اور تباہ حالت میں تھی۔ یہی عمل انگریزوں نے دوسری جنگ عظیم میں دہرایا دوسری جنگ عظیم نے ریلوے کو شدید معذور کردیا۔ جاپانیوں سے لڑنے کے لئے برصغیر پاک و ہند کے سرمائے اور ٹیکس سے بنی ٹرینیں مشرق وسطی اور بعدازاں مشرق بعید کی طرف موڑ دی گئیں۔ ریلوے ورکشاپس کو گولہ بارود کی ورکشاپوں میں تبدیل کردیا گیا اور کچھ پٹریوں (جیسے چرچ گیٹ سے بمبئی میں کولابا) دوسرے ممالک میں جنگ کے استعمال کے لئے ختم کردی گئیں۔ 1946 تک تمام ریل نظام حکومت نے اپنے قبضے میں لے لئے تھے۔ اس طرح برطانیہ نے دو جنگ عظیم میں ہندوستان کو اور جی بھر کر لوٹا اور ہندوستان کے وسائل اور دولت سے دو عظیم جنگیں لڑیں جس کا نتیجہ ہندوستان کے انفرا سٹرکچر کی تباہی، قحط، معاشی بدحالی اور غربت کی صورت میں سامنے آیا۔ اگر انگریز چاہتے تو 1905 اور 1942 میں عظیم بنگال کے قحط کو روکنے کےلئے خوراک کی ترسیل کے لئے ریلوے کو استعمال کر سکتے تھے لیکن جان بوجھ کر ہندوستانیوں کو بھوکا رکھا گیا اور قحط میں کروڑوں لوگ مر گئے اور اس دوران برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا کہ مجھے ہندوستانیوں سے سخت نفرت ہے، ان کو مرنے دو، یہ خرگوشوں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔
انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند میں ریلوے کی تعمیر کے دوران ریلوے نیٹ ورک یا مقامات کو منسلک کرنے کا فیصلہ کرتے وقت ہندوستانی معاشی ترقی پر کبھی غور نہیں کیا، صرف فوجی مفادات اور ہندوستان سے لوٹے گئے مال کی برطانیہ کو بندرگاہوں کے ذریعے ترسیل اور فوجی مفادات اہمیت کے حامل تھے، اس کے نتیجے میں بہت سارے سفید ہاتھیوں کی تعمیر بھی ہوئی جس کی ادائیگی مقامی افراد نے کی ، کیونکہ تجارتی مفادات نے سرکاری عہدیداروں کو گھاٹوں سے دوچار کیا۔ناقص وسائل مختص کرنے کے نتیجے میں ہندوستانیوں کو سیکڑوں لاکھوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا، برصغیر پاک و ہند میں ریلوے کمپنیوں کے زیادہ تر شراکت دار برطانوی تھے۔ ان میں سے بیشتر کمپنیوں کے ہیڈ آفس لندن میں تھے ، اس طرح ہندوستانی رقم کو قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کا موقع دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1903 سے 1945 تک ہندوستانی قومی قرض میں ریلوے کا حصہ تقریبا 50٪ تھا اور یہ اس شعبے میں برطانیہ کی لوٹ مار کا نتیجہ تھا۔
ای آئی آر ، جی آئی پی آر اور بمبئی بڑودہ (جو سب ہندوستان میں چل رہے تھے اور لندن میں رجسٹرڈ تھے) کی اجارہ داری تھی جس سے منافع ہوا ، تاہم ان کو ہندوستان کی ترقی کے لئے کبھی نہیں لگایا گیا۔ 1843 میں ، گورنر جنرل چارلس ہارڈنگ نے کہا کہ ریلوے کی تعمیر سے سلطنت کو فائدہ پہنچے گا اور "ملک کے تجارت ، حکومت اور فوجی کنٹرول" میں مدد ملے گی۔ اسی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں برطانیہ کی طرف سے ریلوے کی تعمیر یہاں لوٹ مار اور قبضہ مستحکم رکھنے کی حکمت عملی کا نتیجہ تھی نہ کہ یہاں کے باشندوں کو سہولیات فراہم کرنے کا ۔انگریز اس ریلوے کے ذریعے صرف ہندوستان کے قدرتی وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتے تھے کیونکہ انہوں نے کوئلہ ، لوہا، سیسہ ، روئی اور دیگر قدرتی وسائل جیسی چیزوں کو برطانیہ میں اپنی فیکٹریوں میں استعمال کرنے کے لئے بندرگاہوں تک پہنچانا تھا۔ٹرینوں میں ہندوستانیوں کو فرسٹ کلاس کے ڈبوں میں سوار ہونے سے منع کیا گیا تھا حلانکہ ریلوے کی تعمیر کرنے میں مدد انہی باشندوں نے دی۔ ریلوے کے فرسٹ کلاس ڈبوں میں میں لیبل لگا ہوتا تھا جس میں لکھا ہوتا تھا کہ "کتے اور ہندوستانیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے اور یہ ڈبہ صرف یورپیوں کے لئے مخصوص ہے۔ یعنی کہ برطانیہ کی نظر میں برصغیر پاک و ہند کے باشندے اور کتے برابر تھے اور آج ان کی اولاد کہتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ریلوے کی تعمیر برطانیہ کا احسان عظیم ہے۔
ایک عام اور شدت سے پھیلی غلط فہمی اور تاریخی دھوکے کی اصلاح
برطانیہ کی طرف سے ریلوے نظام کے نام پہ ہندوستان میں لوٹ مار
ترجمہ و ترتیب: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مضمون ملکی سیریز کے لحاظ سے ریل ٹرانسپورٹ کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔1870 میں برصغیر پاک و ہند میں عظیم جزیرہ نما ریلوے نیٹ ورک کا وجود میں آیا۔ ہندوستان میں ریل نقل و حمل کی تاریخ کا آغاز انیسویں صدی کے وسط میں 1850ء سے پہلے ہوا۔
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے بعد نوآبادیاتی برطانوی حکومت کے ذریعہ برصغیر میں ریلوے کو بنیادی طور پر اپنی متعدد جنگوں کے لئے فوجیوں کی نقل و حمل اورملوں کو روئی برآمد کرنے کے لئے ریلوے کو آہستہ آہستہ تیار کیا گیا۔ برصغیر میں انگریزوں کی طرف سے ریلوے کا مقصد ہندوستانی عوام کو کوئی سہولیات فراہم کرنا نہیں تھا اور برصغیر میں ریلوے میں ہندوستانی مسافروں کی سہولت کو 1947 تک بہت کم دلچسپی ملی،دلچسپی تب سامنے آئی جب ہندوستان کو آزادی ملی اور انہوں نے زیادہ مناسب انداز میں ریلوے تیار کرنا شروع کی۔1929 تک ہندوستان کے بیشتر اضلاع میں 66،000 کلومیٹر (41،000 میل) ریلوے لائنیں چل رہی تھیں۔ اس وقت ، ریلوے کچھ £ 687 ملین کی سرمائی قیمت کی نمائندگی کرتا تھا ، اور اس میں ایک سال میں 620 ملین مسافر اور تقریبا 90 ملین ٹن سامان ہوتا تھا۔ہندوستان میں ریلوے نجی ملکیت میں چلنے والی کمپنیوں کا ایک گروپ تھا۔زیادہ تر برطانوی اسکے حصہ دار تھے اور جن کا منافع مستقل طور پر برطانیہ لوٹ گیا تھا اور اس سے برصغیر کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
تاریخ سے نابلد اور ناواقف لوگوں کی طرف سے برصغیر پاک و ہند میں وسیع ریلوے نظام کو برطانوی نوآبادیات کے فوائد کی ایک مثال کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اس کی وضاحت اور اس کا پول ششی تھرور اور بپن چندر جیسے اسکالر کھولتے ہیں کہ یہ دعوہ تاریخی طور پہ کس قدر غلط اور جھوٹ پہ مبنی ہے جس کے ذریعے عوام کو بیوقوف بنا کر ان کو انگریز اقتدار کے بارے میں دھوکے اور خوش فہمی میں رکھنے اور برصغیر پاک و ہند پہ برطانیہ کے قبضے کا جواز اور اس کی حمایت فراہم کی جاتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں ریلوے کا نظام 1837 میں شروع ہوا اور یہ ابتدا میں بر طانوی ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے نتیجے میں برطانوی کمپنیوں کے برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے ساتھ اشتراک سے شروع کیا گیا۔یہ نظام برصغیر کے لوگوں کے لئے کسی نعمت کی نہیں بلکہ برطانوی نوآبادیاتی لوٹ مار کی بدترین مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ برصغیر میں انگریز اقتدار کے دوران ریلوے کے نظام سے متعلقہ برطانوی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی کہ وہ زیادہ منافعے کے لئے اس کی تعمیر پر زیادہ رقم خرچ کریں، اس مقصد کے لئے انگریزوں کے زیر تسلط ہندوستانی ریلوے کمپنیوں کے اکثر لندن میں مقیم برطانوی شراکت داروں کو منافعے اور لوٹ مار کی ضمانت دی گئی اور جان بوجھ کر برصغیر میں ریلوے کی تعمیر پہ برصغیر کا خون نچوڑ کر اور برصغیر کے سرمائے سے اضافی رقم خرچ کی گئی اور اس تعمیر میں انگریز کمپنیوں نے جی بھر کے کرپشن اور لوٹ مار کی۔ 1850 اور 1860 کی دہائی میں ہندوستانی ریلوے کی فی میل کی تعمیر میں اوسطا 18،000 پاؤنڈ لاگت آئی ، جب کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک ہی وقت میں فی میل ریلوے کی تعمیر پہ 2000 پاؤنڈ لاگت آئی یعنی برصغیر میں ہر میل ریلوے کی تعمیر پہ برطانوی کمپنیوں نے سولہ ہزار پاؤنڈ اضافی رقم خرچ کی اور یہ سب برصغیر کے پیسے اور وسائل سے کیا گیا، کرپشن، بد عنوانی اور حرام خوری کی اس رقم سے انگریز کمپنیوں کو جان بوجھ کر فائدہ پہنچایا گیا اور اس مقصد کے لئے برصغیر پاک و ہند کی عوام کا خون ٹیکس اور محصولات کے ذریعے نچوڑا گیا۔ 1875 تک ، برطانوی کمپنیوں نے ہندوستان کی ضمانت شدہ ریلوے میں تقریبا 95 ملین پاؤنڈ (117 ارب ڈالر کے برابر) کی سرمایہ کاری کی تھی۔اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ کہ ان سرمایہ کاریوں میں ، ہندوستان میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے ممبروں اور برطانیہ میں مشینری اور اسٹیل کی فراہمی کرنے والی کمپنیوں نے شدید بدعنوانی، لوٹ مار اور حرام خوری کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ریلوے لائنوں اور سامان پر متوقع خرچ سے زیادہ خرچہ آیا۔ یہ تو تھی وہ لوٹ مار جو برطانیہ نے برصغیر میں ریلوے کی تعمیر کے نام پہ کی۔ اب ذرا اس تعمیر شدہ ریلوے کا حال بھی دیکھ لیجئے جس کو آج لبرل دانشگرد برطانیہ کا احسان کہتے تھکتے نہیں۔ پہلی جنگ عظیم 1914-1918 کی آمد کے ساتھ ہی برصغیر کی ریلوے کا استعمال ہندوستان سے باہر انگریزوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بیدردی سے اور برصغیر پاک و ہند کے وسائل سے کیا گیا۔ ریلوے کی تعمیر کے دوران ہزاروں ہندوستانی مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔
جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد برصغیر پاک و ہند کی ریلوے ناکارہ اور تباہ حالت میں تھی۔ یہی عمل انگریزوں نے دوسری جنگ عظیم میں دہرایا دوسری جنگ عظیم نے ریلوے کو شدید معذور کردیا۔ جاپانیوں سے لڑنے کے لئے برصغیر پاک و ہند کے سرمائے اور ٹیکس سے بنی ٹرینیں مشرق وسطی اور بعدازاں مشرق بعید کی طرف موڑ دی گئیں۔ ریلوے ورکشاپس کو گولہ بارود کی ورکشاپوں میں تبدیل کردیا گیا اور کچھ پٹریوں (جیسے چرچ گیٹ سے بمبئی میں کولابا) دوسرے ممالک میں جنگ کے استعمال کے لئے ختم کردی گئیں۔ 1946 تک تمام ریل نظام حکومت نے اپنے قبضے میں لے لئے تھے۔ اس طرح برطانیہ نے دو جنگ عظیم میں ہندوستان کو اور جی بھر کر لوٹا اور ہندوستان کے وسائل اور دولت سے دو عظیم جنگیں لڑیں جس کا نتیجہ ہندوستان کے انفرا سٹرکچر کی تباہی، قحط، معاشی بدحالی اور غربت کی صورت میں سامنے آیا۔ اگر انگریز چاہتے تو 1905 اور 1942 میں عظیم بنگال کے قحط کو روکنے کےلئے خوراک کی ترسیل کے لئے ریلوے کو استعمال کر سکتے تھے لیکن جان بوجھ کر ہندوستانیوں کو بھوکا رکھا گیا اور قحط میں کروڑوں لوگ مر گئے اور اس دوران برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے کہا کہ مجھے ہندوستانیوں سے سخت نفرت ہے، ان کو مرنے دو، یہ خرگوشوں کی طرح بچے پیدا کرتے ہیں۔
انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند میں ریلوے کی تعمیر کے دوران ریلوے نیٹ ورک یا مقامات کو منسلک کرنے کا فیصلہ کرتے وقت ہندوستانی معاشی ترقی پر کبھی غور نہیں کیا، صرف فوجی مفادات اور ہندوستان سے لوٹے گئے مال کی برطانیہ کو بندرگاہوں کے ذریعے ترسیل اور فوجی مفادات اہمیت کے حامل تھے، اس کے نتیجے میں بہت سارے سفید ہاتھیوں کی تعمیر بھی ہوئی جس کی ادائیگی مقامی افراد نے کی ، کیونکہ تجارتی مفادات نے سرکاری عہدیداروں کو گھاٹوں سے دوچار کیا۔ناقص وسائل مختص کرنے کے نتیجے میں ہندوستانیوں کو سیکڑوں لاکھوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا، برصغیر پاک و ہند میں ریلوے کمپنیوں کے زیادہ تر شراکت دار برطانوی تھے۔ ان میں سے بیشتر کمپنیوں کے ہیڈ آفس لندن میں تھے ، اس طرح ہندوستانی رقم کو قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کا موقع دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1903 سے 1945 تک ہندوستانی قومی قرض میں ریلوے کا حصہ تقریبا 50٪ تھا اور یہ اس شعبے میں برطانیہ کی لوٹ مار کا نتیجہ تھا۔
ای آئی آر ، جی آئی پی آر اور بمبئی بڑودہ (جو سب ہندوستان میں چل رہے تھے اور لندن میں رجسٹرڈ تھے) کی اجارہ داری تھی جس سے منافع ہوا ، تاہم ان کو ہندوستان کی ترقی کے لئے کبھی نہیں لگایا گیا۔ 1843 میں ، گورنر جنرل چارلس ہارڈنگ نے کہا کہ ریلوے کی تعمیر سے سلطنت کو فائدہ پہنچے گا اور "ملک کے تجارت ، حکومت اور فوجی کنٹرول" میں مدد ملے گی۔ اسی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں برطانیہ کی طرف سے ریلوے کی تعمیر یہاں لوٹ مار اور قبضہ مستحکم رکھنے کی حکمت عملی کا نتیجہ تھی نہ کہ یہاں کے باشندوں کو سہولیات فراہم کرنے کا ۔انگریز اس ریلوے کے ذریعے صرف ہندوستان کے قدرتی وسائل سے ناجائز فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتے تھے کیونکہ انہوں نے کوئلہ ، لوہا، سیسہ ، روئی اور دیگر قدرتی وسائل جیسی چیزوں کو برطانیہ میں اپنی فیکٹریوں میں استعمال کرنے کے لئے بندرگاہوں تک پہنچانا تھا۔ٹرینوں میں ہندوستانیوں کو فرسٹ کلاس کے ڈبوں میں سوار ہونے سے منع کیا گیا تھا حلانکہ ریلوے کی تعمیر کرنے میں مدد انہی باشندوں نے دی۔ ریلوے کے فرسٹ کلاس ڈبوں میں میں لیبل لگا ہوتا تھا جس میں لکھا ہوتا تھا کہ "کتے اور ہندوستانیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے اور یہ ڈبہ صرف یورپیوں کے لئے مخصوص ہے۔ یعنی کہ برطانیہ کی نظر میں برصغیر پاک و ہند کے باشندے اور کتے برابر تھے اور آج ان کی اولاد کہتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں ریلوے کی تعمیر برطانیہ کا احسان عظیم ہے۔
0 تبصرے