ڈارون کا نظری ارتقاء جن چار اصولوں پر قائم ہے، وہ درج ذیل ہیں:
1: تغیرات Variations
2: بقا کی جدوجہد Struggle for Existance
3: فطرتی انتخاب Natural Selection
4: بقائے اصلح Survival of the Fittest
قرآن مجید نے انسان کی ابتداء اور پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے جو مراحل بیان کیے ہیں، وہ ان مراحل سے یکسر مختلف ہیں جو ڈارون بیان کرتا ہے۔ پہلے انسان آدم علیہ السلام کی تخلیق کے یہ مراحل درج ذیل ہیں:
1: آدم علیہ السلام کی پیدائش کی ابتداء "تراب" یعنی مٹی سے ہوئی۔ سب سے پہلے اللہ عزوجل نے اس زمین سے کچھ مٹی لی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ( إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ)۔ ترجمہ: عیسی علیہ السلام کی مثال آدم علیہ السلام کی سی ہے جنہیں اللہ عزوجل نے مٹی سے پیدا کیا اور پھر اسے کن کہا تو وہ ہو گیا۔ اس آیت کی نبوی تفسیر یہ ہے: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الأَرْضِ۔۔۔۔[سنن ابو داود] ترجمہ: اللہ تعالی آدم علیہ السلام کو اس مٹھی بھر مٹی سے پیدا کیا جو اللہ عزوجل نے تمام زمین سے لی۔۔۔۔۔
2: دوسرے مرحلے میں یہ "تراب" یعنی خشک مٹی "طین لازب" یعنی ایک لیس دار گارا تھی یعنی ایسی مٹی کہ جس میں پانی ملایا گیا ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے: ( إِنَّا خَلَقْنَاهُمْ مِنْ طِينٍ لازِبٍ ) ترجمہ: ہم نے انہیں لیس دار گارے سے پیدا کیا۔
3: تیسرے مرحلے میں "طین لازب" نے "صلصال من حمإ مسنون" یعنی کھنکھناتی سوکھی سڑی ہوئے مٹی کی صورت اختیار کر لی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ( ولقد خلقنا الإنسان من صلصال من حمإ مسنون ) ترجمہ: اور ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے کھنکھناتے سوکھے گارے سے پیدا کیا۔
4: چوتھے مرحلے میں "صلصال من حمإ مسنون" نے "فخار" یعنی ٹھیکری کی صورت اختیار کر لی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: (خَلَقَ الأِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ) ترجمہ: اللہ عزوجل نے انسان کو ٹھیکری کی مانند کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا۔
ان چار مراحل کی تفسیر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی ہے: «لَمَّا صَوَّرَ اللهُ آدَمَ فِي الْجَنَّةِ تَرَكَهُ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَتْرُكَهُ، فَجَعَلَ إِبْلِيسُ يُطِيفُ بِهِ، يَنْظُرُ مَا هُوَ، فَلَمَّا رَآهُ أَجْوَفَ عَرَفَ أَنَّهُ خُلِقَ خَلْقًا لَا يَتَمَالَكُ» [صحیح مسلم] ترجمہ: جب اللہ عزوجل نے آدم علیہ السلام کا پتلہ جنت میں بنایا تو جس وقت تک چاہا، انہیں اس پتلے کی حالت میں رہنے دیا، پس ابلیس ان کے پتلے کا طواف کرتا اور یہ غور کرتا ہے کہ یہ کیا ہے، پس جب اس نے دیکھا کہ یہ پتلہ اندر سے خالی ہے تو اس نے یہ خیال کیا کہ یہ ایک ایسی مخلوق ہو گی، جسے اپنے پر اختیار نہ ہو گا۔
5: پانچویں مرحلے میں آدم علیہ السلام کے اس پتلے میں روح پھونکی گئی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ( وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَراً مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَأٍ مَسْنُونٍ * فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ ) ترجمہ: اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں سڑی ہوئی مٹی کے کھنکھناتے سوکھے گارے سے انسان پیدا کرنے والا ہوں۔ پس جب میں اس کی نوک پلک سنوار دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدے میں گر جانا۔ پہلے انسان کی پیدائش کے یہ پانچ تخلیقی مراحل تھے۔
جبکہ دوسرے انسان کی پیدائش، پہلے انسان سے ہوئی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاء ) ترجمہ: اے لوگو، اپنے رب سے ڈر جاو کہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور پھر اسی جان سے اس کا جوڑا بھی پیدا کیا۔ اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت پیدا کر کے پھیلا دیے۔ ( خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا ) ترجمہ: اللہ عزوجل نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا۔ پھر اس نے اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا۔
دوسرے انسان کی پیدائش کے قرآنی بیان کی تفسیر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمائی ہے: فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، [صحیح مسلم] ترجمہ: عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔
تیسرے انسان کی پیدائش پہلے دو سے ہوئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: ( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاء ) ترجمہ: اے لوگو، اپنے رب سے ڈر جاو کہ جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور پھر اسی جان سے اس کا جوڑا بھی پیدا کیا۔ اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورت پیدا کر کے پھیلا دیے۔
تیسرے انسان کی پیدائش بھی سات مراحل؛ مٹی کا جوہر، نطفہ، علقہ، مضغہ، ہڈی، ہڈی پر گوشت، خلق آخر یعنی روح کا پھونکا جانا میں ہوئی ہے جو کہ درج ذیل ہیں: ( وَلَقَدْ خَلَقْنَا الأِنْسَانَ مِنْ سُلالَةٍ مِنْ طِينٍ* ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ* ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَاماً فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ) ترجمۃ؛ اور ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا، پھر ہم نے اس کو ایک مضبوط جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔ پھر ہم نے اس نطفے کو علقہ بنایا۔ پھر اس علقہ کو مضغہ بنایا۔ پھر مضغہ کو ہڈی بنایا۔ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر ہم نے اس کو ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔
اگر تو آدم علیہ السلام کی تخلیق کے ان پانچ مراحل یا انسان کے ماں کے پیٹ میں پیدا ہونے کے سات مراحل کو کوئی ارتقاء کا نام دیتا ہے، تو ہمیں ان تخلیقی مراحل کے ماننے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن پہلے ، دوسرے اور تیسرے انسان کی پیدائش میں جو ارتقائی مراحل ہیں، ان میں تغیرات Variations کی بات تو ہے لیکن بقا کی جدوجہد Struggle for Existance، فطرتی انتخاب Natural Selection اور بقائے اصلح Survival of the Fittest صرف ڈارون ہی کو مبارک ہو اور قرآن مجید سے ان ڈارونی اصولوں کو ثابت کرنا بالکل غلط ہے چاہے یہ کوئی مسلمان بائیالوجسٹ سرانجام دے یا مسلم اسکالر۔
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر
0 تبصرے