قرآن اور نظریہ ارتقاء

قرآن اور نظریہ ارتقاء:
ڈاکٹر رضوان اسد خان
..............
سورۃ النساء کی یہ پہلی آیت ملاحظہ فرمائیں:
يٰۤـاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَا لًا كَثِيْرًا وَّنِسَآءً ۚ وَا تَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَا لْاَرْحَا مَ ۗ اِنَّ اللّٰهَ كَا نَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا
"لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے"
اس کے بعد بھی جو شخص آدم علیہ السلام کی بذریعہ ارتقاء تخلیق پر یقین رکھتا ہے، اسے یا تو نظریہ ارتقاء کی سمجھ نہیں یا قرآن کی سمجھ نہیں... کیونکہ دونوں کا بیک وقت درست ہونا محال ہے.
اس بات کو غامدی صاحب کی مثال سے سمجھتے ہیں. غامدی صاحب ارتقاء کے قائل ہیں اور اسے قرآن کے خلاف نہیں سمجھتے. تقریباً جتنے بھی مسلمان انسان کی بذریعہ ارتقاء تخلیق کے قائل ہیں انکا مؤقف تقریباً غامدی صاحب جیسا ہی ہے. لہٰذا اسی کو لے کر چلتے ہیں اور اسکی خامیاں واضح کرتے ہیں...
سب سے بڑا مغالطہ ان لوگوں کو ان آیات سے ہوتا ہے جہاں انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کرنے کا ذکر ہے. فوراً انکا دھیان سائنس کے اس تصور کی طرف جاتا ہے کہ کسی سمندر کنارے گیلی مٹی میں پہلا خلیہ وجود میں آیا. اور پھر اس سے ارتقاء کے ذریعے مختلف جانداروں کی پیدائش کا سلسلہ چل نکلا.
اب یہاں غامدی صاحب کا نظریہ سب سے عجیب ہے. آپ ایک خلیے سے باقی جانداروں اور پھر اسی سلسلے سے انسان کی تخلیق کے قائل نہیں. بلکہ آپکے خیال میں جب ارتقاء کا سلسلہ "انسان نما" جانداروں تک پہنچا تو ان میں سے ایک جوڑے کو منتخب کر کے اللہ نے ان میں روح پھونکی جو دراصل انہیں انسانی شعور سے مزین کرنا تھا اور یوں اس جوڑے سے باقی انسان پیدا ہوئے...!!!
جب ان سے پوچھا گیا کہ قرآن میں ایک اور مقام پر عیسی علیہ السلام کی بن باپ کی پیدائش کو وجہ الوہیت قرار دینے کو اللہ نے یہ کہہ کر رد کیا ہے اس طرح تو آدم علیہ السلام بغیر ماں اور بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو انہیں تو اس بنیاد پر بدرجہ اولی خدا ہونا چاہیے. تو اسکے جواب میں فرماتے ہیں کہ دراصل انکے والدین "انسان" نہیں تھے اسلیے انہیں بن ماں باپ کے ہی سمجھا جائے گا.
اور اس آیت میں جو ذکر ہے کہ آدم علیہ السلام سے ہی انکا جوڑا یعنی حوا علیہا السلام کو تخلیق کیا گیا اور اسکی وضاحت ایک صحیح حدیث میں بھی ہے جسکے مطابق آدم علیہ السلام کی پسلی سے انکی زوجہ کو اللہ نے تخلیق فرمایا. تو اس پر وہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی تفسیر بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد آدم علیہ السلام کے جسم سے تخلیق نہیں بلکہ انکی جنس سے یعنی ان جیسی تخلیق ہے. اسکی مثال وہ سورۃ النحل کی آیت 72 سے دیتے ہیں:
"وَا للّٰهُ جَعَلَ لَـكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا... "
"اور وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں...."
کہ یہاں بھی اللہ نے فرمایا ہے کہ تمہارے انفس سے تمہاری بیویاں بنائیں اور ظاہر ہے کہ یہاں جسم سے تخلیق مراد نہیں.
حالانکہ یہاں اصلاحی صاحب جیسے مفسر نے بھی اس مثال میں خطا کھائی ہے. سورۃ النساء والی آیت میں حوا علیہ السلام کیلئے "خلق" کا لفظ استعمال ہوا ہے جو نئی تخلیق کے معنوں میں ہے. جبکہ یہاں "جعل" کا لفظ ہے جس سے مراد بنانا ہے جسکے لئے نئی تخلیق قطعاً ضروری نہیں.
اسکے علاوہ اس دور از کار تاویلات پر مشتمل تصور میں اور بھی بڑی پیچیدگیاں ہیں:
.. جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انسان اور اس سے ملتے جلتے جانداروں مثلاً بندر کے جینز کی مماثلت کا کیا مطلب ہے تو غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ مشترک جد کی نہیں بلکہ مشترک خالق کی دلیل ہے. اس بات سے ہم بھی اتفاق کرتے ہیں لیکن سائنس اس بات کو نہیں مانتی. اب آپ سائنس کے کچھ حصے کا اقرار اور کچھ کا انکار کر رہے ہیں تو اسکی کیا مجبوری ہے؟
.. اس بات کی کیا دلیل ہے کہ "نیو اینڈرتھیل مین" (ارتقاء میں موجودہ انسان سے پچھلے مرحلے کا انسان) میں سے ایک جوڑا منتخب کر کے اس میں روح پھونکی گئی.
.. آدم و حوا علیہم السلام کا جنت میں قیام اور پھر وہاں سے "اترنا" (اھبطوا) نہ کہ محض "نکلنا"(اخرجوا) ... ارتقاء کے نظریے میں کیسے فٹ ہوتا ہے؟
.. بعد میں آدم علیہ السلام اور انکی اولاد کا پچھلے انسان نما جانداروں کے ساتھ کیسا اختلاط رہا؟ بعد میں وہ سب کہاں غائب ہو گئے اور کیسے؟ جبکہ بندر اور بن مانس تو آج تک موجود ہیں...!!!
اور بھی بہت سی الجھنیں ہیں جنہیں انگریزی مقولے "سٹریچ آف ایمیجنیشن" یعنی تخیل کی لمبی پرواز سے ہی حل کیا جا سکتا ہے، کسی ٹھوس دلیل سے نہیں...
حقیقت یہی ہے کہ جب آپ عقل کی بنیاد پر حدیث کا انکار کرتے ہیں تو نہ دین کے رہتے ہیں اور نہ سائینس کے...!!!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے