مصنوعی چنائو
Artificial Selection
Artificial Selection
ارتقائی حیاتیات دان اکثر اوقات مصنوعی چنائو (سلیکٹیو بریڈنگ) کو ارتقاء کی ایک عمدہ مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں کیونکہ 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق مصنوعی چنائو کے ذریعے کتوں کی 340 کے قریب مختلف اقسام تیار کی جا چکی ہیں۔
لیکن یہاں ارتقائی حیاتیات دان یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کتوں کی جینوم میں بہت سی ریسیسیو (recessive) الیلیں موجود ہیں۔ جن کو سیلیکٹیو بریڈنگ کے ذریعے نکھار کر سامنے لایا جاتا ہے جس سے کتوں کی مختلف بریڈز تیار ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی بھی نوع کے ڈی این اے میں ریسیسیو الیلوں کی صورت میں جتنا زیادہ جینیاتی تنوع ہوگا اتنی زیادہ اس کی بریڈز تیار کی جاسکتی ہیں۔
لیکن ڈی این اے کی کچھ حدود ہیں جن کو نہ مصنوعی چنائو کے ذریعے پار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فطری چنائو کے ذریعے۔وہ حدود یہ ہیں کہ کتوں کی جتنی مرضی اقسام تیار کر لی جائیں لیکن کتوں کے مصنوعی چنائو سے بلی، لگڑبھگڑ یا کوئی بھی دوسری نوع نہ ہی آج تک بنائی جا سکی اور نہ ہی بنائی جاسکتی ہے۔
لیکن یہاں ارتقائی حیاتیات دان یہ بات بھول جاتے ہیں کہ کتوں کی جینوم میں بہت سی ریسیسیو (recessive) الیلیں موجود ہیں۔ جن کو سیلیکٹیو بریڈنگ کے ذریعے نکھار کر سامنے لایا جاتا ہے جس سے کتوں کی مختلف بریڈز تیار ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کسی بھی نوع کے ڈی این اے میں ریسیسیو الیلوں کی صورت میں جتنا زیادہ جینیاتی تنوع ہوگا اتنی زیادہ اس کی بریڈز تیار کی جاسکتی ہیں۔
لیکن ڈی این اے کی کچھ حدود ہیں جن کو نہ مصنوعی چنائو کے ذریعے پار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فطری چنائو کے ذریعے۔وہ حدود یہ ہیں کہ کتوں کی جتنی مرضی اقسام تیار کر لی جائیں لیکن کتوں کے مصنوعی چنائو سے بلی، لگڑبھگڑ یا کوئی بھی دوسری نوع نہ ہی آج تک بنائی جا سکی اور نہ ہی بنائی جاسکتی ہے۔
0 تبصرے