(رنگیلا بھگوان (حصہ دوئم

(رنگیلا بھگوان (حصہ دوئم
تحریر:محمد مکرم
پہلے حصے میں ہم نے ہندوؤں کے نام نہاد بھگوان کرشنا کی پیدائش کا مختصر پس منظر پیش کیا اور ساتھ ہی ضعیف العقیدہ ہندوؤں کو آئینہ بھی دکھایا کہ کیا کوئی بھگوان انسانی بچہ بن کے پیدا ہوسکتا ہے ؟جو پیدا ہوتا ہے وہ انسان ہوتا ہے خدا نہیں ہوتا ،
معزز قارئین اس حصے میں ہم ہندوؤں کے نام نہاد بھگوان کرشنا کے بچپن سے جوانی تک کے وہ کارنامے پیش خدمت کریں گے جسے پڑھ کر عقلمند لوگ یہ اندازہ با آسانی لگا لیں گے کہ یہ کام ایک شریف انسان تک نہیں کر سکتا لیکن یہ کام اس انسان نے کئے جسے ضعیف العقیدہ لوگ اپنا بھگوان مانتے ہیں-
کرشنا بچپن سے ہی شرارتی قسم کے انسان تھے یہ اکثر مکھن دہی وغیرہ بھی چرایا کرتے تھے جس کا ذکر ہندوؤں کی کتاب بھگوت گیتا میں موجود ہے ،کرشنا صاحب کا بچپن میں بہترین مشغلہ لوگوں کو تنگ کرنا اور مکھن چوری کرنا وغیرہ تھا اور جوانی میں تو موصوف کی طبیعت میں عیاشی شوقین مزاجی اور حوس پرستی جیسے عناصر شامل حال ہو گئے تھے -چند ایک کا ذکر درج ذیل کر رہا ہوں ملحائضہ کیجئیے -
کرشنا صاحب عورتوں کے بہت شوقین تھے جس کا ذکر ہمیں ہندوؤں کی کتابوں میں ملتا ہے شری مد بھگواتم ١١ -١٠ ١٠.٩٠ سے اقتباس -کرشنا صاحب ملکاؤں کے کپڑوں کے اندر ان کی ننگی رانیں اور پستان دیکھ رہے ہیں دیکھ دیکھ کر ان کے جذبات ابھرنے لگے پھر کرشنا صاحب نے ایک پھولوں کی ملا پستان میں لٹکا دی جسے اس نے اپنے پستان سے اٹھایا-
لنگا پرانا سیکشن .٨٢ ١.٦٩ سے اقتباس- کرشنا صاحب نے سولہ ہزار ایک سو لڑکیاں اٹھائیں اپنی حوس کی تسکین کے لئے -
شری مد بھگواتم ١٧-١٠.٢٢.١٦ سے اقتباس ،کرشنا کہتے ہیں لڑکیوں سے یعنی اپنی داسیوں (خادمہ) سے کہ اگر واقعی تم لوگ میری داسی ہو اور جو میں کہتا ہوں کر سکتی ہو تو پھر آجائو باہر ساتھ اپنی معصوم مسکراہٹ لیے اپنے لباس اٹھانے-پھر ان کی داسیاں پانی سے باہر آئیں اپنی شرمگاہوں پہ ہاتھ رکھ کر -
اس حوالے کا پس منظر کچھ یوں ہے( اسے کرشنا لیلا بھی کہا جاتا ہے) ،کرشنا صاحب انتہائی شوقین مزاج تھے موصوف اپنی تسکین نفس کی خاطر اکثر اس دریا کے کنارے جایا کرتے تھے جہاں ان کی داسیاں نہایا کرتی تھیں-کرشنا صاحب دبے پاؤں ان کے کپڑے چرا کر کنارے ایک درخت پہ براجمان ہو کران دلکش مناظر سے لفط اندوز ہوا کرتے تھے اور اس سے اوپر کے دو حوالوں کو پڑھ کر با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کرشنا صاحب کی حوس کی انتہا کیا رہی ہوگی- لیکن بات یہاں پہ ختم نہیں ہوتی- نوٹ کر لیں یہ کرشنا صاحب بھگوان ہیں ہندوؤں کے-کرشنا صاحب نے ایسا ہی کارنامہ اپنی بیوی رادھا کے ساتھ بھی انجام دیا وہ بھی اپنی داسیوں کے سامنے ملحائضہ کیجئیے-
بھرما ووارتا پرانا کرشنا جانما کھنڈا ٢٨.١١٧،١٣٢ سے اقتباس ،کرشنا نے رادھا کے کپڑے چرائے اور برہنہ رادھا سے بغل گیر ہو کر زیر آب موج مستیوں میں مشغول ہو گئے -نقل کفر کفر نباشد- پھر کائنات کے مالک (کرشنا) اور رادھا نے وہ سب کیا جسے لکھنا یہاں ممکن نہیں ہے ،پھر یہ کھیل تمام ہوا کرشنا اور رادھا دونوں برہنہ حالت میں پانی سے باہر آگئے اور ایک دوسرے سے اپنے کپڑے طلب کئے-
معزز قارئین کرشنا وہ انسان ہے جسے ضعیف العقیدہ ہندو لوگ اپنا بھگوان مانتے ہیں جیسا اپ نے اوپر حوالے میں بھی پڑھا ہوگا کہ معاذالله کرشنا کو کائنات کا مالک بتایا ہے ہندو مت کی کتاب نے اب ہندوؤں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کیا خدا ایسی نازیبا حرکات کر سکتا ہے وہ بھی اپنی ہی بنائی ہوئی مخلوق کے ساتھ ؟یا خدا انسان کی طرح نفسانی خواہشات یا جنسی بھوک کا طلب گر ہو سکتا ہے؟ معاذالله
خدا ان سب عیوب سے پاک ہے لیکن انسان کے اندر نفسانی خواہشات اور جنسی بھوک موجود ہوتی ہے اس لئے کرشنا صاحب بھی اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین اور جنسی بھوک کے سبب ایسی نازیبا حرکات کیا کرتے تھے -عقلمند لوگ ان سب باتوں پہ غور کر کے با آسانی اس نیتجے پہ پہنچ جائیں گے کہ یہ کرشنا صاحب ہم اپ کی طرح ایک عام انسان ہی تھے نا کہ کوئی بھگوان ..................
جاری ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے