کیا اسلام نے غلامی کو فروغ دیا اور یورپ نے اسےختم کیا؟ ایک اعتراض اور اس کا جواب
تدوین و ترتیب: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلامی دنیائے انسانیت کا ایک قدیم اور محبوب مشغلہ رہا ہے۔ ہر طاقتور قوم اپنی مطلوب و مجبور اقوام کو نہ صرف غلام بنا دیتی بلکہ ان سے کھیتوں، کاروباری مراکز اور دیگر مقامات پر کام کرایا جاتا۔ اس دور میں غلاموں پر ہرطرح کے تشدد کا مالک کو قانونی حق حاصل تھا اور ان کی تجارت بھی جانوروں کی طرح کی جاتی تھی۔اہل مصر ، ہندو اور فارسیوں جیسی قدیم اقوام میں بھی غلاموں کو ادنیٰ حقوق بھی حاصل نہیں تھے اور ذرا سی بات پر ان کو زندہ جلا دیا جاتا۔ یونانی اور رومی تہذیب میں بھی غلاموں کو حیوانوں کی طرح استعمال کیا جاتا رہا۔ عیسائی اور یہودیوں میں بھی تقریبا یہی سلوک کیا جاتا۔
18ہویں صدی میں مملکت فرانس میں یہ قانون بنایا گیا کہ کوئی غلام اگر کسی آزاد انسان سے زیادتی، چوری یا لڑائی کرتا اسے سزائے موت دی جاتی۔ جو غلام بھاگ جاتے ان کو پکڑ کر ان کے کان کاٹ دیے جاتے اور ان کو داغا جاتا۔ اگر غلام مسلسل تین بار بھاگتا تو اس کی سزا موت متعین کر دی گئی۔ غلاموں کو صرف یورپ نے پنجروں میں بند رکھا۔ اس سے پہلے ایسا کوئی رواج نہ تھا۔ ان کے گلے میں رسیاں ڈالی جاتی اور جانوروں کی طرح پنجروں میں بند رکھاجاتا۔ گیمبیا اور نائجیریا ساؤتھ اور سینٹرل افریقہ میں باقاعدہ جال لگا کر سیاہ فام باشندوں کو پکڑا جاتا اور غلام بنا کر امریکا لے جایا جاتا۔ جہاں ان سے دو وقت کی روٹی کے بدلے سب کام لیے جاتے تھے۔ مرد اور عورتوں کو جنسی غلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔کچھ عرصہ قبل جمیکا کے دورے کے دوران جمیکا کی وزیر اعظم نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن سے مطالبہ کیا گیا کہ ماضی میں غلاموں کی تجارت میں ملوث رہنے کی وجہ سے برطانیہ کو اپنے کیے پر معافی مانگنی چاہیے اور سیاہ فام لوگوں کو اس زیادتی کے ازالے کے لیے معاوضہ بھی دینا چاہیے۔ برطانوی حکومت نے جمیکا کے اس مطالبے کو رد کر دیا اور کہا کہ برطانیہ واحد ملک نہیں ہے جس نے ایسا کیا ہے۔برطانیہ 18ویں صدی کی اپنی ان نوآبادیاتی پالسییوں کی مالی تلافی کرے جس کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیاد افریقیوں کو بحرالکاہل کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ہونے والی غلاموں کی تجارت میں خریدا اور بیچا گیا۔جمیکا میں کچھ لوگوں نے اس معاملے میں جس شخص کا نام سرفہرست رکھا اس کا تعلق خود ڈیوڈ کیمرن کے اپنے خاندان سے ہے، یعنی جنرل سر جیمز ڈف جو کہ وزیر اعظم کے دور کے کزن بنتے ہیں۔تایخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ 19ویں صدی میں اس شخص نے اس وقت معاوضے کی شکل میں خوب دولت بنائی جب برطانیہ نے غلامی کو غیر قانونی قرار دے دیا اور جنرل سر جیمز ڈف نے اپنے 200 غلام آزاد کر دیے جن کا تعلق جمیکا سے تھا۔لیکن یوں دولت بنانے والوں میں ڈف اکیلے نہیں تھے، بلکہ برطانوی اشرافیہ میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں تھی جنھوں نے غلاموں کی تجارت کے منافع بخش کاروبار سے اپنی امارت کی بنیادوں کو مضبوط کیا تھا۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں برطانوی اشرافیہ نے جو دولت کمائی اس کا پانچواں حصہ غلاموں کی تجارت سے ہی کمایا گیا تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ غلاموں کی تجارت میں اگر کسی کو آج تک معاوضہ ملا ہے تو وہ ان لوگوں کو ملا ہے جنھوں نے 46 ہزار افراد کو غلام بنا رکھا تھا۔ سنہ 1833 میں غلامی کے خاتمے کا قانون بننے کے بعد برطانوی حکومت نے ان افراد کو تین کروڑ امریکی ڈالر کے برابر رقم ادا کی جن کا موقف یہ تھا کہ غلاموں کو آزاد کرنے سے ان کے کاروبار کو مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
سنہ 1997 میں ایک افریقی کمیشن کا مطالبہ تھا کہ ’مغرب‘ افریقہ کو معاوضے میں 777 ٹریلین ڈالر ادا کرے۔ یہ ان دنوں امریکی قومی پیداوار سے 70 گنا زیادہ رقم بنتی تھی۔ اسے لیے اس مطالبے کو فوری طور پر رد کر دیا کیونکہ ہر کسی کا خیال تھا کہ اتنی بڑی رقم کا مطالبہ بالکل بے تکی بات ہے۔نہ صرف برطانیہ، بلکہ فرانس کے موجودہ صدر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ مالی تلافی ایک ’ناممکن‘ بات ہے، بالکل اسی طرح جیسے آج غلامی کے دور کی ’تصحیح‘ نہیں کی جا سکتی۔میرا خیال ہے کہ صدیوں پہلے غلاموں کی تجارت کا آغاز کرنے والے پہلے ممالک، یعنی سپین اور پرتگال کا بھی یہی موقف ہوگا۔
یہ وہ تصور غلامی ہے جو یورپ اور امریکا میں انیسویں صدی کے اوائل تک قائم رہا۔ امریکا اور یورپ والے ڈیڑھ سو سال پہلے تک اس جہالت زدہ نظام کو اپنائے ہوئے تھے۔ ان کی زرعی ترقی میں اہم کردار انہیں غلاموں کا ہے جنہیں جانوروں کی طرح جوتا جاتا اور کام لیا جاتا۔ جب سائنسی دور آیا اور اس نظام کی ضرورت نہ رہی تو ایسی اقوام نے انسانی حقوق کا عالمی چمپئن بن کر اس نظام پر پابندی عاید کر دی۔
اسلام میں کسی بھی آزاد انسان کو غلام بنانے کے تمام طریقے ناجائز اور حرام قرار دیے گئے ہیں، سوائے ایک صورت جنگی قیدی کے اور ان سے بھی محبت کا سلوک روا رکھا جاتا۔ جبکہ ہر قوم قیدیوں کو اپنا غلام بناتی تھی۔ اگر مسلمان ایسا نہ کرتے تو اپنے جنگی قیدیوں کو چھڑانا مشکل ہوتا اور کفار کو چھوڑ دینے سے وہ دوبارہ قوت پکڑ کر حملہ آور ہو سکتے تھے۔ اگر دشمن کا رویہ ٹھیک ہو تو ان قیدیوں کو معاوضہ لے کر یا جنگی قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا جاتا۔
جن قیدیوں کو مسلمان رہا نہیں کر سکتے اور نہ ہی سزائے موت دے سکتے ان کو رہا کر کے معاشرے میں سمو دیا جاتا اورمکمل انسانی حقوق دیے جاتے تا کہ وہ خود کو حقیر نہ سمجھیں۔ وقت گواہ ہے کہ ان قیدیوں میں بہت سے عالم، مفکر،اور اولیاء کرام سامنے آئے۔ ایسے قواعد بنائے جن سے غلامی اور آزادی کا فاصلہ بہت کم رہ گیا۔ اسلام میں غلامی کی یہ محدود صورت جو کہ جنگی قیدیوں کے بارے میں حکم نہیں بلکہ آپشن کے طور پر رہی مغرب کے نزدیک ہمیشہ قابل اعتراض رہی۔
اسلام ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے انسانوں کی خرید فروخت کے خاتمے کا اعلان کر چکا تھا۔ اب تمام قوموں کا غلامی کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی مدد سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ تو اسلامی ممالک بھی اس کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں بھی 1973ء کے آئین شق 11 کے تحت غلامی کے تصور کو ختم کر دیا گیا اور اسے غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیا گیا۔ دیکھاجائے تو اس معاہدے کا فائدہ مسلمانوں کو زیادہ ہے۔ کیونکہ مسلمان جنگی قیدیوں سے حسن و سلوک کے پابند تھے۔ جب کہ غیر مسلم جنگ کے علاوہ بھی مسلمانوں کو غلام بنا دیا کرتے تھے۔ تا ہم اگر کفار یا دیگر مغربی اقوام اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو مسلمان بھی اس آپشن کو محدود حد تک استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ طلاق ناپسندیدہ فعل ہونے کے باوجود حالت مجبوری میں جائز قرار دیا گیا ہے۔
مغرب آج اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے انسانی خرید و فروخت ختم کر دیا ہے مگر آج کے دور کی غلامی بہت سی شکلیں اختیار کر چکی ہے۔ اب افراد کی بجائے اقوام کو غلام بنایا جاتا ہے اور ان کے وسائل کو لوٹا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں شرعی لحاظ سے لونڈی رکھنے کا کوئی نظریہ موجود نہیں اور نہ ہی اسلام اجازت دیتا ہے ۔ مگر مغرب میں لونڈی کو دیگر نام دے کر رکھا جاتا ہے۔ اگر موازنہ کیا جائے تو اسلام میں گرفتار ہو کر آنے والوں کے بھی بہت سے حقوق تھے اور مگر مغرب میں چند ٹکوں کے عوض رکھے جانے والے غلاموں کے نہ تو کوئی حقوق ہیں اور نہ ہی ان کو کوئی عزت و احترام ملتا ہے۔
تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو انسانی حقوق کے چمپئن نے مخالف اقوام کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ ویتنام، عراق اور افغانستان کی جنگیں ان کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہزاروں عورتوں کو قید کر کے ان کی عزتوں کو پامال کیا گیا۔ ان جنگوں میں مردوں کے ساتھ ہونے والا سلوک گوانتاناموبے جیسے عقوبت خانے سے عیاں ہے۔یہ بات تو دور کی ہے ابھی گزشتہ ماہ انکشاف ہوا کہ اقوام متحدہ کے ادارے مہاجرت کے کارکنان نے مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی اور غیر انسانی حرکات تک کرتے ہیں۔
آزادی کا جو تصور اسلام میں ہے شاید ہی وہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں میں یا اقوام میں ہو۔اسلام کے احکامات سے (نعوذ باللہ) اگر کوئی خود کو قیدی تصور کرتا ہے تو اس چاہیے کہ وہ بہتر مطالعہ اور مشاہدہ کرے۔ اقوام عالم میں نظر دوڑائے اور پھر آزادی کی شرح کا اندازہ لگائے کہ اسلام میں کتنا آزادی اور حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ باتوں سے تو صرف الجھا جاسکتا ہے، حقائق تک نہیں پہنچا جاسکتا۔
لبرل اور مغرب کا ثناء خواں طبقہ اس خوش فہمی میں ہے کہ غلامی کا خاتمہ مغرب نے کیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے غلامی کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ غلامی کی قدیم شکل کو متروک قرار دیکر غلامی کو جدید شکل دی۔آج کے انسان کا مقصد محض سرمایہ میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ ہی رہ گیا ہے۔ جس کے لیئے مغربی نظام تعلیم کے ذریعے ایسے غلام پیدا کیئے جا رہے ہیں جو اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت سرمایہ دار کے غلام ہیں فرق یہ ہے کہ قدیم غلام اپنے آپ کو غلام ہی سمجھتے تھے اور یہ جدید غلام اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔
اسی طرح لونڈیوں کی قدیم شکل کو متروک قرار دیکر ایک جدید شکل دی گئی۔ دور قدیم میں لونڈیوں کو جنسی تسکین اور کام کاج کے لیئے جبراََ استعمال کیا جاتا تھا جبکہ جدید دور میں عورت کو آزادی کا جھانسہ دیکر عین وہی کام لیا جاتا ہے۔ پورن سٹارز اور اداکاراؤں کی حیثیت ایک جدید غلام سے کس طرح مختلف ہے۔آج بھی عورت محض جنسی تسکین ہی کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی ہے اور بازاروں میں بخوشی اپنا جسم بیچتی ہے ۔فرق طریقہ کار کا ہے۔
آج کے دور میں دنیا کے کم از کم چالیس ملین یا چار کروڑ انسان ایسے ہیں، جو جدید غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں ریکارڈ حد تک زیادہ ہے اور غلاموں کی یہ عالمگیر تجارت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔برطانوی دارالحکومت لندن سے نیوز ایجنسی تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے پیر تیس جولائی 2018 کے روز اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا کہ آج کی بظاہر جدید، ترقی یافتہ اور باشعور دنیا میں کم ازکم بھی چار کروڑ انسان ایسے غلام ہیں۔
اس جدید غلامی کی کئی شکلیں ہیں، جن میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور زرعی فارموں اور ماہی گیری کے شعبے میں کام کرنے والے مردوں کے علاوہ وہ خواتین بھی شامل ہیں جن سے جبراﹰ جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔ یہی نہیں جدید غلامی کی انہی صورتوں میں وہ انسان بھی شامل ہیں، جن کے جسمانی اعضاء بیچ دیے جاتے ہیں اور وہ بچے بھی جن سے سڑکوں پر بھیک منگوائی جاتی ہے یا جن کی کم سنی میں زبردستی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق کروڑوں انسانوں کو جدید غلامی کی مختلف شکلوں کے ساتھ ان کی شخصی آزادیوں اور بنیادی حقوق سے محروم کر دینے اور ان کا مسلسل استحصال کرتے رہنے کا یہ عمل انسانوں کی اسمگلنگ کی وجہ سے بھی پھیلتا ہی جا رہا ہے، جس سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فعال جرائم پیشہ گروہ مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور انہیں ہر سال قریب 150 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق مشرقی بعید کی کمیونسٹ ریاست شمالی کوریا اور افریقہ میں اریٹریا اور برونڈی ایسے ممالک ہیں، جہاں انسانوں کو جدید غلامی کی زندگی پر مجبور کیے جانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک، چین اور بھارت شامل ہیں نہ کہ کوئی مسلمان ملک۔یورپ میں ایک تہائی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔یورپی یونین میں شامل ممالک کی تقریباً ایک تہائی خواتین 15 برس کی عمر سے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار رہی ہیں۔ہر 20 میں سے ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار بنی۔ان خواتین میں سے 22 فیصد پر جسمانی یا جنسی تشدد کرنے والا ان کا جیون ساتھی ہی تھا لیکن ان میں سے 67 فیصد نے گھریلو تشدد کے واقعات کے بارے میں کبھی پولیس کو مطلع نہیں کیا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کثرتِ شراب نوشی اور گھریلو تشدد کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔
زمانہ قدیم و جدید کی غلامی میں فرق صرف اتنا ہے کہ قدیم زمانے کا انسان دور قدیم کا غلام تھا یہ دور جدید کا غلام ہے۔پہلے عورت دور قدیم کی لونڈی تھی۔ آج دور جدید کی لونڈی ہے۔ وہ اپنے آپ کو غلام سمجھتے تھے یہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔۔۔۔!!! پھر یہ جھوٹ کیوں کہ اسلام نے غلامی کو فروغ دیا اور یورپ نے اسے ختم کیا؟
سوچیں اور سوچتے جائیں۔
تدوین و ترتیب: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غلامی دنیائے انسانیت کا ایک قدیم اور محبوب مشغلہ رہا ہے۔ ہر طاقتور قوم اپنی مطلوب و مجبور اقوام کو نہ صرف غلام بنا دیتی بلکہ ان سے کھیتوں، کاروباری مراکز اور دیگر مقامات پر کام کرایا جاتا۔ اس دور میں غلاموں پر ہرطرح کے تشدد کا مالک کو قانونی حق حاصل تھا اور ان کی تجارت بھی جانوروں کی طرح کی جاتی تھی۔اہل مصر ، ہندو اور فارسیوں جیسی قدیم اقوام میں بھی غلاموں کو ادنیٰ حقوق بھی حاصل نہیں تھے اور ذرا سی بات پر ان کو زندہ جلا دیا جاتا۔ یونانی اور رومی تہذیب میں بھی غلاموں کو حیوانوں کی طرح استعمال کیا جاتا رہا۔ عیسائی اور یہودیوں میں بھی تقریبا یہی سلوک کیا جاتا۔
18ہویں صدی میں مملکت فرانس میں یہ قانون بنایا گیا کہ کوئی غلام اگر کسی آزاد انسان سے زیادتی، چوری یا لڑائی کرتا اسے سزائے موت دی جاتی۔ جو غلام بھاگ جاتے ان کو پکڑ کر ان کے کان کاٹ دیے جاتے اور ان کو داغا جاتا۔ اگر غلام مسلسل تین بار بھاگتا تو اس کی سزا موت متعین کر دی گئی۔ غلاموں کو صرف یورپ نے پنجروں میں بند رکھا۔ اس سے پہلے ایسا کوئی رواج نہ تھا۔ ان کے گلے میں رسیاں ڈالی جاتی اور جانوروں کی طرح پنجروں میں بند رکھاجاتا۔ گیمبیا اور نائجیریا ساؤتھ اور سینٹرل افریقہ میں باقاعدہ جال لگا کر سیاہ فام باشندوں کو پکڑا جاتا اور غلام بنا کر امریکا لے جایا جاتا۔ جہاں ان سے دو وقت کی روٹی کے بدلے سب کام لیے جاتے تھے۔ مرد اور عورتوں کو جنسی غلام بنا کر رکھا جاتا تھا۔کچھ عرصہ قبل جمیکا کے دورے کے دوران جمیکا کی وزیر اعظم نے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن سے مطالبہ کیا گیا کہ ماضی میں غلاموں کی تجارت میں ملوث رہنے کی وجہ سے برطانیہ کو اپنے کیے پر معافی مانگنی چاہیے اور سیاہ فام لوگوں کو اس زیادتی کے ازالے کے لیے معاوضہ بھی دینا چاہیے۔ برطانوی حکومت نے جمیکا کے اس مطالبے کو رد کر دیا اور کہا کہ برطانیہ واحد ملک نہیں ہے جس نے ایسا کیا ہے۔برطانیہ 18ویں صدی کی اپنی ان نوآبادیاتی پالسییوں کی مالی تلافی کرے جس کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیاد افریقیوں کو بحرالکاہل کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ہونے والی غلاموں کی تجارت میں خریدا اور بیچا گیا۔جمیکا میں کچھ لوگوں نے اس معاملے میں جس شخص کا نام سرفہرست رکھا اس کا تعلق خود ڈیوڈ کیمرن کے اپنے خاندان سے ہے، یعنی جنرل سر جیمز ڈف جو کہ وزیر اعظم کے دور کے کزن بنتے ہیں۔تایخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ 19ویں صدی میں اس شخص نے اس وقت معاوضے کی شکل میں خوب دولت بنائی جب برطانیہ نے غلامی کو غیر قانونی قرار دے دیا اور جنرل سر جیمز ڈف نے اپنے 200 غلام آزاد کر دیے جن کا تعلق جمیکا سے تھا۔لیکن یوں دولت بنانے والوں میں ڈف اکیلے نہیں تھے، بلکہ برطانوی اشرافیہ میں ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں تھی جنھوں نے غلاموں کی تجارت کے منافع بخش کاروبار سے اپنی امارت کی بنیادوں کو مضبوط کیا تھا۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں برطانوی اشرافیہ نے جو دولت کمائی اس کا پانچواں حصہ غلاموں کی تجارت سے ہی کمایا گیا تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ غلاموں کی تجارت میں اگر کسی کو آج تک معاوضہ ملا ہے تو وہ ان لوگوں کو ملا ہے جنھوں نے 46 ہزار افراد کو غلام بنا رکھا تھا۔ سنہ 1833 میں غلامی کے خاتمے کا قانون بننے کے بعد برطانوی حکومت نے ان افراد کو تین کروڑ امریکی ڈالر کے برابر رقم ادا کی جن کا موقف یہ تھا کہ غلاموں کو آزاد کرنے سے ان کے کاروبار کو مالی نقصان اٹھانا پڑے گا۔
سنہ 1997 میں ایک افریقی کمیشن کا مطالبہ تھا کہ ’مغرب‘ افریقہ کو معاوضے میں 777 ٹریلین ڈالر ادا کرے۔ یہ ان دنوں امریکی قومی پیداوار سے 70 گنا زیادہ رقم بنتی تھی۔ اسے لیے اس مطالبے کو فوری طور پر رد کر دیا کیونکہ ہر کسی کا خیال تھا کہ اتنی بڑی رقم کا مطالبہ بالکل بے تکی بات ہے۔نہ صرف برطانیہ، بلکہ فرانس کے موجودہ صدر بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ مالی تلافی ایک ’ناممکن‘ بات ہے، بالکل اسی طرح جیسے آج غلامی کے دور کی ’تصحیح‘ نہیں کی جا سکتی۔میرا خیال ہے کہ صدیوں پہلے غلاموں کی تجارت کا آغاز کرنے والے پہلے ممالک، یعنی سپین اور پرتگال کا بھی یہی موقف ہوگا۔
یہ وہ تصور غلامی ہے جو یورپ اور امریکا میں انیسویں صدی کے اوائل تک قائم رہا۔ امریکا اور یورپ والے ڈیڑھ سو سال پہلے تک اس جہالت زدہ نظام کو اپنائے ہوئے تھے۔ ان کی زرعی ترقی میں اہم کردار انہیں غلاموں کا ہے جنہیں جانوروں کی طرح جوتا جاتا اور کام لیا جاتا۔ جب سائنسی دور آیا اور اس نظام کی ضرورت نہ رہی تو ایسی اقوام نے انسانی حقوق کا عالمی چمپئن بن کر اس نظام پر پابندی عاید کر دی۔
اسلام میں کسی بھی آزاد انسان کو غلام بنانے کے تمام طریقے ناجائز اور حرام قرار دیے گئے ہیں، سوائے ایک صورت جنگی قیدی کے اور ان سے بھی محبت کا سلوک روا رکھا جاتا۔ جبکہ ہر قوم قیدیوں کو اپنا غلام بناتی تھی۔ اگر مسلمان ایسا نہ کرتے تو اپنے جنگی قیدیوں کو چھڑانا مشکل ہوتا اور کفار کو چھوڑ دینے سے وہ دوبارہ قوت پکڑ کر حملہ آور ہو سکتے تھے۔ اگر دشمن کا رویہ ٹھیک ہو تو ان قیدیوں کو معاوضہ لے کر یا جنگی قیدیوں کے بدلے رہا کر دیا جاتا۔
جن قیدیوں کو مسلمان رہا نہیں کر سکتے اور نہ ہی سزائے موت دے سکتے ان کو رہا کر کے معاشرے میں سمو دیا جاتا اورمکمل انسانی حقوق دیے جاتے تا کہ وہ خود کو حقیر نہ سمجھیں۔ وقت گواہ ہے کہ ان قیدیوں میں بہت سے عالم، مفکر،اور اولیاء کرام سامنے آئے۔ ایسے قواعد بنائے جن سے غلامی اور آزادی کا فاصلہ بہت کم رہ گیا۔ اسلام میں غلامی کی یہ محدود صورت جو کہ جنگی قیدیوں کے بارے میں حکم نہیں بلکہ آپشن کے طور پر رہی مغرب کے نزدیک ہمیشہ قابل اعتراض رہی۔
اسلام ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے انسانوں کی خرید فروخت کے خاتمے کا اعلان کر چکا تھا۔ اب تمام قوموں کا غلامی کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی مدد سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ تو اسلامی ممالک بھی اس کا حصہ ہیں۔ پاکستان میں بھی 1973ء کے آئین شق 11 کے تحت غلامی کے تصور کو ختم کر دیا گیا اور اسے غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیا گیا۔ دیکھاجائے تو اس معاہدے کا فائدہ مسلمانوں کو زیادہ ہے۔ کیونکہ مسلمان جنگی قیدیوں سے حسن و سلوک کے پابند تھے۔ جب کہ غیر مسلم جنگ کے علاوہ بھی مسلمانوں کو غلام بنا دیا کرتے تھے۔ تا ہم اگر کفار یا دیگر مغربی اقوام اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو مسلمان بھی اس آپشن کو محدود حد تک استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ طلاق ناپسندیدہ فعل ہونے کے باوجود حالت مجبوری میں جائز قرار دیا گیا ہے۔
مغرب آج اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے انسانی خرید و فروخت ختم کر دیا ہے مگر آج کے دور کی غلامی بہت سی شکلیں اختیار کر چکی ہے۔ اب افراد کی بجائے اقوام کو غلام بنایا جاتا ہے اور ان کے وسائل کو لوٹا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں شرعی لحاظ سے لونڈی رکھنے کا کوئی نظریہ موجود نہیں اور نہ ہی اسلام اجازت دیتا ہے ۔ مگر مغرب میں لونڈی کو دیگر نام دے کر رکھا جاتا ہے۔ اگر موازنہ کیا جائے تو اسلام میں گرفتار ہو کر آنے والوں کے بھی بہت سے حقوق تھے اور مگر مغرب میں چند ٹکوں کے عوض رکھے جانے والے غلاموں کے نہ تو کوئی حقوق ہیں اور نہ ہی ان کو کوئی عزت و احترام ملتا ہے۔
تاریخ کو اٹھا کر دیکھیں تو انسانی حقوق کے چمپئن نے مخالف اقوام کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ ویتنام، عراق اور افغانستان کی جنگیں ان کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہزاروں عورتوں کو قید کر کے ان کی عزتوں کو پامال کیا گیا۔ ان جنگوں میں مردوں کے ساتھ ہونے والا سلوک گوانتاناموبے جیسے عقوبت خانے سے عیاں ہے۔یہ بات تو دور کی ہے ابھی گزشتہ ماہ انکشاف ہوا کہ اقوام متحدہ کے ادارے مہاجرت کے کارکنان نے مہاجرین کے ساتھ بدسلوکی اور غیر انسانی حرکات تک کرتے ہیں۔
آزادی کا جو تصور اسلام میں ہے شاید ہی وہ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں میں یا اقوام میں ہو۔اسلام کے احکامات سے (نعوذ باللہ) اگر کوئی خود کو قیدی تصور کرتا ہے تو اس چاہیے کہ وہ بہتر مطالعہ اور مشاہدہ کرے۔ اقوام عالم میں نظر دوڑائے اور پھر آزادی کی شرح کا اندازہ لگائے کہ اسلام میں کتنا آزادی اور حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ باتوں سے تو صرف الجھا جاسکتا ہے، حقائق تک نہیں پہنچا جاسکتا۔
لبرل اور مغرب کا ثناء خواں طبقہ اس خوش فہمی میں ہے کہ غلامی کا خاتمہ مغرب نے کیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب نے غلامی کا خاتمہ نہیں کیا بلکہ غلامی کی قدیم شکل کو متروک قرار دیکر غلامی کو جدید شکل دی۔آج کے انسان کا مقصد محض سرمایہ میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ ہی رہ گیا ہے۔ جس کے لیئے مغربی نظام تعلیم کے ذریعے ایسے غلام پیدا کیئے جا رہے ہیں جو اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں لیکن درحقیقت سرمایہ دار کے غلام ہیں فرق یہ ہے کہ قدیم غلام اپنے آپ کو غلام ہی سمجھتے تھے اور یہ جدید غلام اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔
اسی طرح لونڈیوں کی قدیم شکل کو متروک قرار دیکر ایک جدید شکل دی گئی۔ دور قدیم میں لونڈیوں کو جنسی تسکین اور کام کاج کے لیئے جبراََ استعمال کیا جاتا تھا جبکہ جدید دور میں عورت کو آزادی کا جھانسہ دیکر عین وہی کام لیا جاتا ہے۔ پورن سٹارز اور اداکاراؤں کی حیثیت ایک جدید غلام سے کس طرح مختلف ہے۔آج بھی عورت محض جنسی تسکین ہی کا ایک ذریعہ سمجھی جاتی ہے اور بازاروں میں بخوشی اپنا جسم بیچتی ہے ۔فرق طریقہ کار کا ہے۔
آج کے دور میں دنیا کے کم از کم چالیس ملین یا چار کروڑ انسان ایسے ہیں، جو جدید غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں ریکارڈ حد تک زیادہ ہے اور غلاموں کی یہ عالمگیر تجارت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔برطانوی دارالحکومت لندن سے نیوز ایجنسی تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے پیر تیس جولائی 2018 کے روز اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا کہ آج کی بظاہر جدید، ترقی یافتہ اور باشعور دنیا میں کم ازکم بھی چار کروڑ انسان ایسے غلام ہیں۔
اس جدید غلامی کی کئی شکلیں ہیں، جن میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور زرعی فارموں اور ماہی گیری کے شعبے میں کام کرنے والے مردوں کے علاوہ وہ خواتین بھی شامل ہیں جن سے جبراﹰ جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔ یہی نہیں جدید غلامی کی انہی صورتوں میں وہ انسان بھی شامل ہیں، جن کے جسمانی اعضاء بیچ دیے جاتے ہیں اور وہ بچے بھی جن سے سڑکوں پر بھیک منگوائی جاتی ہے یا جن کی کم سنی میں زبردستی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق کروڑوں انسانوں کو جدید غلامی کی مختلف شکلوں کے ساتھ ان کی شخصی آزادیوں اور بنیادی حقوق سے محروم کر دینے اور ان کا مسلسل استحصال کرتے رہنے کا یہ عمل انسانوں کی اسمگلنگ کی وجہ سے بھی پھیلتا ہی جا رہا ہے، جس سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فعال جرائم پیشہ گروہ مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور انہیں ہر سال قریب 150 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔اس رپورٹ کے مطابق مشرقی بعید کی کمیونسٹ ریاست شمالی کوریا اور افریقہ میں اریٹریا اور برونڈی ایسے ممالک ہیں، جہاں انسانوں کو جدید غلامی کی زندگی پر مجبور کیے جانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک، چین اور بھارت شامل ہیں نہ کہ کوئی مسلمان ملک۔یورپ میں ایک تہائی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہیں۔یورپی یونین میں شامل ممالک کی تقریباً ایک تہائی خواتین 15 برس کی عمر سے جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار رہی ہیں۔ہر 20 میں سے ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار بنی۔ان خواتین میں سے 22 فیصد پر جسمانی یا جنسی تشدد کرنے والا ان کا جیون ساتھی ہی تھا لیکن ان میں سے 67 فیصد نے گھریلو تشدد کے واقعات کے بارے میں کبھی پولیس کو مطلع نہیں کیا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ کثرتِ شراب نوشی اور گھریلو تشدد کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔
زمانہ قدیم و جدید کی غلامی میں فرق صرف اتنا ہے کہ قدیم زمانے کا انسان دور قدیم کا غلام تھا یہ دور جدید کا غلام ہے۔پہلے عورت دور قدیم کی لونڈی تھی۔ آج دور جدید کی لونڈی ہے۔ وہ اپنے آپ کو غلام سمجھتے تھے یہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں۔۔۔۔!!! پھر یہ جھوٹ کیوں کہ اسلام نے غلامی کو فروغ دیا اور یورپ نے اسے ختم کیا؟
سوچیں اور سوچتے جائیں۔
حوالہ جات:
1:https://www.bbc.com/…/2…/10/151002_reparation_for_slavery_sq
2:https://www.google.com/…/%25D8%25AC%25D8%25AF%25…/a-44879221
3:https://www.bbc.com/…/2014/03/140305_eu_women_violence_repo…
4: تاریخ غلامی اور اسلام، سفیر احمد چوہدری
2:https://www.google.com/…/%25D8%25AC%25D8%25AF%25…/a-44879221
3:https://www.bbc.com/…/2014/03/140305_eu_women_violence_repo…
4: تاریخ غلامی اور اسلام، سفیر احمد چوہدری
0 تبصرے